۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
نوشتن

حوزہ/ میں اس شو پر ہونے والی بھرمار تنقید سے ہٹ کر حقیقت پسندانہ نگاہ سے اس موضوع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔

تحریر: سید محمد رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی| میں اس شو پر ہونے والی بھرمار تنقید سے ہٹ کر حقیقت پسندانہ نگاہ سے اس موضوع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔

1- ہر معاشرے میں کچھ خاص pet (بالتو جانور) ہوتے ہیں، جیسے صحرانشیں عرب اونت پالنے کے شوقیں ہیں۔

وسطی ایشیا کے لوگ گھوڑے پالتے ہیں۔

ایران کے خانہ پدوش بھیڑ بکریاں پسند کرتے ہیں۔

پنجاب میں بھینسوں اور گایوں کی مختلف نسلوں کی نمائش کی جاتی ہے۔

اور گلگت بلتستان کے پالتو جانوروں میں دوسرے چوپایوں کی نسبت "ہیق" (yak) اور بزو بزومو کو اہمیت حاصل ہے۔

اس تناظر میں بلتستان یونیورستی کے منتظمین کو چاہئے تھا کتوں کے بجائے ان دیسی جانوروں کی نمائش کرتے۔

2- جہاں تک کتے کا تعلق ہے، بلتی معاشرے کے گھریلو جانوروں میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔

بلکہ اکثر علاقوں میں پایا ہی نہیں جاتا۔

یہاں 1966 ع کے بلتستان میں اس جانور کی صورتحال بیان کرتا ہوں:

نجف اشرف روانگی سے قبل 8 سال کی عمر تک میں نے کسی کتے کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی۔

میرا بچپن ننھیال کے گاؤں پاری کھرمنگ میں گزرا ہے۔

جس کے بارے میں یہ ضرب المثل مشہور تھا "پاری پا لہ کھی تھونگفہ ژوخ" (جیسے پاری والے نے کتا دیکھا ہو)۔

میں خدا حافظی کے لئے اپنے أبائی گاؤں غندوس گیا، پتا چلا مشہور شکاری حاجی محمد چو نے ایک شکاری کتا پال رکھا ہے۔

یہ علاقے کا اکلوتا کتا تھا۔ میں دیکھنے گیا، حاجی مرحوم نے اس کو گھر سے باہر دیسی بیت الخلا کے ایک کونے میں باندھ رکھا تھا!۔

مارچ 1966 ع میں ہم سکردو میں 18 دن تک ہوائی جہاز کے انتظار میں رہے۔

اس دوران اپنے جاننے والوں کے ہاں دعوتوں پر سکیمیدان، کشمراہ، کرسمہ تھنگ، خوشو چشمہ اور منگر جانے کا اتفاق ہوا۔

لیکن کہیں مجھے کوئی کتا دیکھنے کو نہیں ملا۔

ایک دن بچوں کے ساتھ چھاؤنی کا والیبال میچ دیکھنے ابولی ٹوق گیا۔

وہاں دور سے ایک کتے کے بھونکنے کی أواز سنائی دی، شائد فوج کا پالتو کتا تھا۔

3- الحمد للہ بلتی معاشرہ ایک مہذب معاشرہ ہے، جس میں روایتی اور اسلامی اقدار حکمفرما ہیں ۔

شرع کی رو سے کتا نجس ہے، اس کے احکام بھی دیگر نجاسات سے منفرد ہیں۔

لہذا بلتستان والے اس کو پالنا پسند نہیں کرتے۔

اور انہی اقدار کے بدولت بلتستان امن کا گہوارہ ہے، لوگ ایک خاندان کے افراد کی مانند رہتے ہیں اور کتے کے ذریعے رکھوالی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

4- ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بلٹستان کی سب سے بڑی درسگاہ میں کتے بلیوں کا مارچ کرانا دو باتوں سے مستثنیٰ نہیں ہیں:

1- وی سی اور دیگر منتظمین تعلیم و تربیت کے اصول اور علاقے کے سماجی اور ثقافتی تقاضوں سے نابلد ہیں، ورنہ وہ ایسے جانور کی نمائش کا اہتمام نہ کرتے، جس کی پرورش علاقے کے باشندے نہیں کرتے، بلکہ نادرست سمجھتے ہیں اور ظاہری طور پر اس کی کوئی افادیت بھی نہیں۔

2- یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ شو کسی ایسی سازش کا حصہ ہو، جس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ہو اور اس کا مقصد بلتستان کے اسلامی اور روایتی تشخص کو مٹاکر نام نہاد تجدد پسندی اور بے راہ روی کو رواج دینا ہو۔

3- ایسے اقدامات کا أغاز مستقبل کے معماروں کے فکری انحطاط کے لئے تعلیمی اداروں سے ہی کیا جاتا ہے۔

معاصر دنیا میں کمال اتا ترک اور شاہ ایران کی نام نہاد اصلاحات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

لمحہ فکریہ!:

اندریں حالات افراد قوم، بالخصوص علما و اکابرین ان باتوں پر غور کریں اور ان سازشوں کا سد باب کرنے کا تدارک کریں۔

اس سلسلے میں مذمتی بیانات پر اکتفا کرنے کا وقت نہیں، عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شعر کے بمصداق خواب غفلت سے اٹھنے کی ضرورت ہے:

با خرقه و سجاده و شمشیر و سِنان خیز

از خواب گران خواب گران خواب گران خیز

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .