۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
کانفرنس

حوزہ/ غدیر اور عاشورا (اسباب، اہداف اور تقاضے) کے عنوان سے جامعۃ النجف سکردو میں ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا، جس سے شیخ یعسوبی، شیخ سجاد مفتی اور شیخ فدا حسین عابدی نے خطاب کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غدیر اور عاشورا (اسباب، اہداف اور تقاضے) کے عنوان سے جامعۃ النجف سکردو میں ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا، جس سے شیخ یعسوبی، شیخ سجاد مفتی اور شیخ فدا حسین عابدی نے خطاب کیا۔

تفصیلات کے مطابق، اس عظیم علمی مذاکرے کے اسپیکر معروف عالم دین شیخ سجاد حسین مفتی، نامور علمی شخصیت شیخ ذوالفقار یعسوبی اور مشہور محقق ڈاکٹر فدا حسین عابدی تھے۔

امت اسلامیہ غدیر کو قبول کرتی تو واقعہ عاشورا رونما نہ ہوتا، مقررین

علمی نشست کا آغاز مدرسہ ہذا کے سینئر طالب علم قاری عرفان حیدر نے تلاوت قرآن مجید سے کیا، طالب علم عمران حسین نے بارگاہ رسالت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔

جناب شیخ سجاد حسین مفتی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غدیر اللہ، رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علی علیہ السلام اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ خواہ وہ انسان مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ اس معاملے میں انسانیت کے حقوق کا تذکرہ کتابوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

امت اسلامیہ غدیر کو قبول کرتی تو واقعہ عاشورا رونما نہ ہوتا، مقررین

تینوں شرکائے گفتگو نے ناظرین کی جانب سے کیے گئے سوالات کے قانع کنندہ جوابات دئیے۔

ڈاکٹر فدا عابدی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ غدیر کا واقعہ فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ غدیر کے اثار قیامت تک انسان کی زندگی میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کے جوانوں کو چاہیے کہ فقط منقبت خوانی کو اہمیت دینے کے بجائے پہلے خود سے غدیر کو سمجھے، پھر غدیر کا پیغام اور اہداف دوسروں تک منتقل کریں۔

غدیر کی محدودیت سے متعلق سوال کے جواب میں شیخ ذوالفقار یعسوبی نے کہا کہ اسلامی روایات کی رو سے اگر کوئی غدیر کی حقیقت کو جان لیتا تو آسمان سے فرشتے آکر ہر روز دس مرتبہ اس سے مصافحہ کرتے۔ حدیث غدیر ایک متواتر حدیث ہے جس کا اعتراف سارے مسلمان کرتے ہیں، لیکن شیعوں کے علاوہ دیگر مسلم مکاتب فکر عید غدیر کو ایک عام سا واقعہ قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ غدیر ایک قرآنی، حدیثی، عقلی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کا معاملہ ہے۔ تمام مسلمان جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دورود و سلام بھیجتے ہیں اسی طرح سب کو چاہیے کہ حضرت علی علیہ السلام پر بھی درود و سلام بھیجیں۔

غدیر کے دن دین کے اتمام سے متعلق سوال کے جواب میں شیخ سجاد حسین مفتی نے کہا کہ اسلامی قوانین قانون تدریج کے تحت نازل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد نظام وہی چلائے گا جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہو، سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہو، سب سے زیادہ بہتر طریقے سے ریاست کو چلا سکتا ہو، چونکہ اسلام نے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی بیان کیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کا معاملہ نہ بتائے، لہٰذا حضور نے حکم الٰہی کے تحت مقام غدیر خم میں اپنی جانشینی کا معاملہ بھی حل کیا۔ بعد میں امت کا اس اعلان کو قبول کرنے کا تعلق ہے تو یہ امت کی ذمہ داری تھی اس اہم اعلان پر عمل پیرا ہو جائے۔ اگر اس حوالے سے کوتاہی کی گئی ہے تو یہ امت کی جانب سے ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول نے تو اتمام حجت کر دیا ہے اور رسول اللہ نے اپنی ذمہ داری کامل طریقے سے نبھائی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ کربلا، واقعہ غدیر سے انحراف کے نتیجے میں رونما ہوا۔

امت اسلامیہ غدیر کو قبول کرتی تو واقعہ عاشورا رونما نہ ہوتا، مقررین

ڈاکٹر شیخ فدا حسین عابدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ غدیر کا ایک اہم ہدف عدالت الٰہی کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ غدیر کو ہماری زندگی پر نافذ کریں اور عاشورا کو فقط جذبات تک محدود رکھنے کے بجائے اس سے آگے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ اہداف کو پہنچانے کا وسیلہ قرار دیں۔ جس طرح امام حسین علیہ السلام یزید سے برسر پیکار رہے کیا ہم آج اپنے وقت کے یزید کے خلاف اٹھنے کو تیار ہیں۔ آج امریکہ اور اسرائیل ظلم و بربریت کی انتہا کر رہے ہیں، اسی طرح سماج کی ناانصافیاں، رشوت خوروں، سود خوروں اور دیگر جرائم کا مقابلہ کرنا بھی ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہم اگر ایسا کریں گے تو ہم نے غدیر کو بھی سمجھا ہے اور عاشورا کو بھی سمجھا ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین شیخ ذوالفقار یعسوبی نے دعائیہ کلمات میں کہا کہ ہمیں خطبۂ غدیر کو پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ولایت کے دو فائدے ہیں۔ انفرادی فائدہ یہ ہے بغیر ولایت کے نہ ہماری نماز قبول ہوتی ہے، نہ ہمارے روزے قبول ہوتے ہیں اور نہ ہماری دیگر نیکیاں قبول ہوتی ہیں۔ دوسرا فائدہ اجتماعی فائدہ ہے۔ اگر پوری امت مسلمہ غدیر کو قبول کرتی تو غدیر کے بعد عاشورا رونما نہ ہوتا اور امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے ہمیں چودہ سو سال تک انتظار کرنا نہ پڑتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .