تحریر: سید عنبر عباس رضوی
مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ رِجَالࣱ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ ٱللَّهَ...
عزت و شرافت، غیرت و شجاعت، بلند ہمت، ماہر سیاست، سید مقاومت، سید و سردار، وارث فاتح خیبر، فرزند حیدر کرار سید حسن نصر اللہ طیب اللہ اثارہ یہ وہ نام ہے جس کے تعارف کے لئے شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں پیدا ہوا ہر وہ شخص جس کا تعلق مکتب اہلبیت رسول علیہم السلام سے ہے وہ اس عظیم ہستی کی شجاعت کے قصے اور کارنامے سن کر جوان ہوا ہے۔ حسن نصر اللہ اس سیاس حساس اور صاحب بصیرت شخص کا نام ہے جس نے کم سنی کے باوجود اپنی ذکاوت و ذہانت اور اللہ پر راسخ ایمان کے عظیم جوہر کے ذریعے اس منصب کی باگ ڈور جوانی کے عالم میں سنبھال لی جس کی ادائیگی امام موسیٰ صدر اور عباس موسوی جیسے خطے کے معروف مذہبی و سیاسی رہنما کر رہے تھے اور اس شخص نے حرکت المحرومین کے تمام تقاضوں کو بدرجہ اتم پورا کیا اور لبنان کی ایک نئی شجاعانہ تاریخ رقم کی جہاں مذاہب و ملل کا باہمی اتحاد شامل تھا تو وہیں دلوں کو ایک نقطۂ اتحاد پر جمع کرنے کو حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کا منصفانہ رنگ عامل تھا اور تمام قوتوں اعداد کو صحیح رخ پر رکھ کر سبھی آج تک شر مطلق کے مقابل صف آرا ہیں۔
محدود امکانات، بے شمار تحریمات، نہ دکھنے والے لا تعداد خطرات اور بازارو زرخرید میڈیا کے بے بنیاد الزامات کے باوجود طویل مدت دشمن کے تمام حربوں اور پینتروں کو کاؤنٹر کرکے اس کو اس کی اوقات میں رکھنا، جس کے پاس بے حساب امکانات ہر جارحانہ دہشت گردی کے مطالق العنان اختیارات اور تمام نام نہادی سوپر پاورس کی تائیدات موجود ہوں ایسی عدیم النظیر کمانڈری صرف حضرت ابوالفضل عباس کے مکتب کے شاگرد سے ہی ممکن ہے۔
"وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی"
حسن نصر اللہ کا وجود گھٹا ٹوپ ظلم و استبداد کی تاریکیوں میں ایک بڑی امید کی مثال تھی ایک ایسی امید جو نسلوں کی بہتر مستقبل کی ضامن تھی، جس کی آواز مظلوموں کے غم کا مداوا تھی، وہ غیرت مند نعرے، وہ تقاریر مگر دیکھتے ہی دیکھتے سب بدل گیا، امید کا وہ آفتاب کن بدلیوں میں چھپ گیا جسے لبنان امام موسیٰ صدر کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے والا دیکھ رہا تھا۔
"اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا"
درخت جتنا بڑا ہوتا ہے اتنا ہی گھنا ہوتا ہے اور جنگ کا قانون ہے کہ جو جنگجو یا کمانڈر میدان میں جتنا پرانا ہوگا اس کے پاس میدان فتح کرنے کے اتنے ہی زیادہ تجربے اور پینترے ہونگے اور دشمن کے دماغ کو پڑھ کر اس کی سازشوں کو بھانپ کر اس سے ہمیشہ دو قدم آگے رہنے کی کوشش کرےگا۔ شہید مقاومت حسن نصر اللہ نے جس خطے میں فرنٹ کی ذمہ داریوں کے بیڑے کو اٹھایا تھا وہ خطہ 60 سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی آج تک اپنے حقوق کے حصول کے تئیں جنگ میں مشغول ہے اور تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اس فرنٹ کی قیادت آپ اپنی مدبرانہ و شجاعانہ پالیسیوں سے کر رہے تھے ہم باآسانی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس پورے عرصۂ دراز میں کئے جانے والے ابتدائی یا دفاعی آپریشنز میں آپ کے کیا حالات تھے اور آپکے حریف مد مقابل کے پاس کیا امکانات و اختیارات تھے۔
"ایسا کہاں سے لائیں کے تجھ سا کہیں جسے"
بعض چیزوں کا اثر اور اسکی افادیت اسکے ظاہری وجود کے بظاھر مٹ جانے کے بعد سامنے آتی ہے، یعنی نہ جنگ اصل ہے اور نہ صلح بلکہ اصل الاصیل وہ عظیم مقصد ہوتا ہے جس کے حصول کے تئیں کبھی جنگ تو کبھی صلح کی ضرورت پڑتی ہے،جس طرح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی عظیم معرکۃ الآرا صلح کہ جس کے بے حساب سیاسی و ظریف نکات ہیں جنکے ذکر کی گنجائش یہاں موجود نہیں ہے اور دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کی سبق آموز عزت مداری کا درس دینے والی جنگ۔
دونوں ہی کا تاریخ انسانیت میں اپنا نفس و نفیس انفرادی مقام ہے،اگر امام حسن علیہ السلام کی صلح نہ ہوتی تو کربلا تو دور خاندان عصمت و طہارت و اسلام ناب محمدی کی جڑیں کھوکھلی کر دی جاتیں، صلح کے نتیجے میں ایک فرصت حاصل ہوئی اور دوسری طرف زمانے کو موقع دیا کہ شاطر و مکار کی تمام بد اعمالیوں و پیمان شکنی کا مشاہدہ کرلے،اور قیام امام عالی مقام سے جہاں دین کی جڑوں کو تقویت حاصل ہوئی وہیں لاکھوں مربع میل پر پھیلی اموی حکومت کی چولیں ڈھیلی پڑ گئی گویا نہ ہر جنگ اچھی ہے نہ بری اور نہ ہر صلح بلکہ اچھے اور برے کی تعیین اسکے متعلق کے ذریعے کی جائے گی کہ اس کے اغراض و نتائج کیا ثابت ہو رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح سید مقاومت کی سیاسی بصیرت اور ان کی حساسیت نے جہاں جنگ کے میدان میں غاصب اسرائیل کے دانت کھٹے کئے وہیں جب 1996 میں جنگ بندی کا اقدام ہوا تو اس بابت حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے آفیشل پیج پر دستخط کرنے سے منع کردیا سید نے فرمایا:اگر ہم اسرائیل کے کسی بھی آفیشل دستاویز پر دستخط کردیں گے تو ہم تحریری شکل میں اسکے وجود کے قائل اور قبول کرنے والے ہو جائینگے بلکہ ثالثی ملک کے ذریعے A4 پر سیز فائر کے شرائط پر دو طرفہ treaty سائن ہوئی۔ سید حسن نصر اللہ کی سیاست و ظرافت کی یہ ایک معمولی مثال ہے پھر2006 کی 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو اسکے جارحانہ بڑھتے تشدد جسمیں عالمی شہری قوانین اور جنگی اصولوں کو پامال کرتے اقدامات پر ایسا طمانچہ رسید کیا کہ تمام مغربی پشتپناہیوں کے باوجود وہ گھٹنوں پر آگیا گویا ایسے چھکے چھوٹے کہ مرحب کی اولادوں کو خیبر یاد آگیا، یہ دونوں پہلو ایک کامیاب قائد کی پہچان کا ذریعہ ہیں کہ اسکو معلوم ہوتا ہے کہاں کیسے صلح کرنی ہے اور کب کسطرح جنگ کرنی ہے۔
"رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد"
بعض چیزوں کا اثر اس کے ظاہری وجود کے مٹ جانے کے بعد سامنے آتا ہے اور یہ پہلے سے زیادہ نمایا ہوتا ہے شہدائے راہ خدا کی خدمات با اثر ہوتی ہیں مگر ان کی شہادت ان کی خدمات سے کہیں زیادہ باعث برکت ہوتی ہے، کیونکہ شہادتِ اعلیٰ ترین تولی اور عبادت یے۔ شہید کا خون وہ خون بن جاتا ہے جس کا انتقام خود خدا لینے والا ہوتا ہے اور اگر خدا کسی کے لیے میدان میں آجائے تو یہ معمولی بات نہیں ہے،اور شاید اسی تناظر میں رہبرِ معظم نے فرمایا ہو کہ شہید سلیمانی کمانڈر سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہے، اور یہ بات کسی فرد سے مخصوص نہیں رہ جاتی بلکہ ایک ضابطہ بن جاتی ہے کہ شہید رئیسی طاغوت کے لیے زندہ رئیسی سے زیادہ خطرناک ہے بعینہ شہید نصر اللہ زندہ نصر اللہ سے زیادہ غاصب صہیونیت کے لیے خطرہ ہے۔
حسن نصر اللہ اس عظیم مرد مجاہد کا نام ہے جو غاصب صہیونیت کی راہ میں سیسے کی سی دیوار تھی اور بالفاظ دیگر ایسا ماہر ترین سیاسی قائد کہ جسے دشمن 30 سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی نہ مار سکا جبکہ اس کے پاس تمام امکانات، اطلاعاتی نظام، مشینری، اپڈیٹ ٹیکنالوجی موجود تھی اور آج مارا تو اپنے اس حملے سے حسن نصر اللہ کی شخصیت و اہمیت ثابت کر بیٹھا ورنہ بھلا کسی ایک شخص کو مارنے کے لیے 80 ہزار کلو ارڈیئس کا استعمال کون کرتا ہے عدد کی اہمیت اس کے متعلق سے ہوتی ہے 80 ہزار روپے یا تومان کی بھلے کوئی خاص اقتصادی اہمیت نہ ہو مگر 80 ہزار کا لفظ وزن کے اعتبار سے اپنی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور یہ وزن مواد منفجر ہو تو اس کی حساسیت انتہائی درجہ پر پہونچ جاتی ہے، دشمن نے اس حملے سے یہ بتا دیا کہ جس کو مارا ہے وہ کتنا بڑا اور عظیم انسان تھا اور انکے باطل اہداف کے حصول کے لیے اسکا مرنا کتنا ضروری ہے مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ رِجَالࣱ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ ٱللَّهَ۔۔۔۔۔۔
"شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک"
سر چشمہ خیر خدا کی ذات ہے اور اس کا قانون ہے کہ وہ ہر زمانے ہر صدی میں ایسے مجدد کو بھیجتا ہے جو دین کے آثار کو زندہ کرنے کے لیے مقتضائے حال و زمان اقدامات کرتا ہے۔ انقلاب اسلامی انفجار نور سے تعبیر ہے اگر ایک جائے گا تو خدا دوسرے کو لائے گا۔ اس انقلاب کی حمایت ہمارا عینی فریضہ ہونا چاہیے اس کی وجہ کے ذیل میں اپنے مرحوم استاد ابن علی واعظ ره کی یہ بات نقل کرتا چلوں آپ کہتے: "ہم غیبت کے زمانے میں جمہوری اسلامی ایران سے مضبوط حکومت نہیں بنا سکتے جو اقدار اسلامی افکار اہلبیت علیہم السلام کی محافظ ہو لہذا جب نہیں بنا سکتے تو اس حکومت کی حفاظت و حمایت ہمارا فریضہ ہے" اور یہ بات مبنی بر حقیقت ہے تبھی انقلاب اسلامی کی کامیابی پر شہید صدر نے کہا تھا یہ حکومت انبیاء الٰہی علیہم السلام کے خواب کی عملی تعبیر ہے خط مقاومت کے شہداء اپنی خدمات انجام دے کر اپنے مولا امیر المومنین علیہ السلام کی بارگاہ میں باریاب ہورہے ہیں اب بھی خبریں آرہی ہیں لیکن کوئی یہ گمان نہ کرے کہ سوتا خشک پڑ گیا نظام ہدایت ہزاروں سال پر مبنی ہے اور ایسی مجدد شخصیات آتی جاتی رہی ہیں جانے والوں کے لیے دل گداز ہے مگر مستقبل اتنا ہی تابناک ہے۔
کاروان انقلاب اسلامی انشاء اللہ اپنی مقاومت کو ادامہ دےگا یہاں تک کہ وہ صحر ظہور سے جا ملے۔
شمع رہبری معظم لہ ان شاء اللہ روشن رہے گی، یہاں تک کہ صحر ظہور کو درک کر لے۔
رہبر معظم کی قوت روز بروز بڑھتی رہے گی نئی نسل شرق و غرب عرب و عجم کے پاکیزہ جوان مومن مؤمنات جدید علوم آئیڈیاز کے ساتھ جڑتے رہیں گے، ان شاءاللہ ظلم و استبداد کی گھٹا چھٹے گی سحر ظہور نزدیک ہے جو ہر غم کا مداوا ہے، شہید قائد سید مقاومت: ہم نے جس راہ پر قدم رکھا ہے اس راہ کو پورا کرینگے- امین
سید مقاومت حسن نصر اللہ کی شہادت کے عظیم سانحہ پر امام زمانہ عج کی خدمت میں رہبرِ معظم ولی امر المسلمین و مرجع عالی قدر آیت اللہ سیستانی جملہ شیعان جہان اہل لبنان مظلومین غزہ کی خدمت میں عرض تسلیت کرتے ہوئے اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں اے اللہ مظلوموں کی ایسی حمایت فرما،شر مطلق اسرائیل و کفر نفاق کو رسوا کر دے۔