تحریر: شیخ محمد وقار حیدر، متعلم جامعہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ، گڑھ
وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غافلاً عَمَّ يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۖ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ
"اور تم یہ خیال نہ کرو کہ اللہ ان کاموں سے غافل ہے جو ظالم کرتے ہیں۔ بے شک وہ انہیں ایک دن کے لیے مہلت دیتا ہے جس دن آنکھیں خوف سے پتھرائی ہوں گی۔"(سورة ابراهيم: 42-43)
تاریخی پس منظر
دنیا کی تاریخ میں اقوام و سلطنتوں کے عروج و زوال کا سفر ایک دائمی حقیقت رہا ہے، جس میں کئی سامراجی و استکباری طاقتیں خدا کی دی ہوئی ایک متعین مدت کی مہلت سے سوء استفادہ کرنے کے بعد اپنے عروج کی انتہا کو پہنچیں اور پھر زوال کی گہرائیوں میں جا گریں۔ آج ہم ایک ایسی ہی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو صہیونیت (Zionism) کے نام پر دنیا کے کاندھوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ صہیونیت، جس نے اپنے آغاز سے فلسطین کی مقدس زمین کو ایک صدی سے زیادہ عرصے تک آگ و خون کی بھینٹ چڑھایا، اپنی ناپایداری کی وجہ سے آج خود اپنے زوال کے کنارے کھڑی ہے۔
صہیونیت Zionism کی بنیاد
صہیونیت کی بنیاد تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے 1897 میں رکھی، جو ایک سیاسی تحریک کے طور پر ابھری۔ یہودی قوم پرست تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کرنا تھا، جو اس وقت کے عالمی سیاسی حالات میں ضروری سمجھا گیا۔ ہرزل نے اپنی کتاب "دی یہودی ریاست" (Der Judenstaat) میں اس خیال کو تفصیل سے بیان کیا۔
یہ تحریک 19ویں صدی کے آخر میں یورپ میں یہودیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور مظالم کے جواب میں سامنے آئی۔ صہیونی تحریک کا پہلا باضابطہ اجلاس 1897 میں بیسل (Basel)، سوئٹزرلینڈ میں ہوا، جس میں ہرزل نے "بیسل پروگرام" پیش کیا، جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔
صہیونیت ابتدا میں ایک سیاسی تحریک کے طور پر یورپ اور امریکہ کے یہودیوں میں مقبول ہوئی، اور اس نے 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ یہ تحریک سیاسی، مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، اور اس کا اہم مقصد فلسطین میں یہودیوں کی واپسی اور ایک مستقل یہودی ریاست کا قیام ہے۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی تحریک کی صورت میں شروع ہوئی، لیکن اس کے اندر مذہبی انتہاپسندی، سامراجی عزائم، اور انسانیت سوز مظالم کی ایک لمبی داستان ہے۔ فلسطین کی معصوم عوام کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے اور حق کی آواز کو دبانے کا یہ عمل ایک نسل کشی کی صورت اختیار کرتا گیا۔ صہیونی منصوبے کی بنیاد میں جہاں ایک منظم و متحد قوم کا تصور تھا، وہیں اس کے نفسیاتی اور اخلاقی گناہوں نے اس تحریک کو آج شکست کی طرف دھکیل دیا ہے۔
صہیونیت کے خلاف عالمی بیداری
آج جبکہ صہیونیت کی بنیاد رکھے جانے کے بعد ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے، دنیا کے انسانیت پسند افراد کے باشعور اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے: آخر صہیونیت کی غاصبانہ حکومت فلسطین کے مظلوم عوام پر کب تک اپنے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھ سکے گی؟ اس وقت اسرائیل، جو صہیونیت کا چہرہ ہے، اپنے داخلی اور خارجی چیلنجز کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔
داخلی سطح پر، اسرائیل ایک بے بس قوم کی تصویر بن چکا ہے، جہاں اخلاقی بحران اور سماجی تفاوت کا انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کو اخلاقی لحاظ سے تنہا کر دیا گیا ہے۔ اقوام عالم صہیونی ریاست کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کر رہی ہیں اور ان کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
صہیونی ریاست کے سیاسی چیلنجز
سیاسی سطح پر صہیونی ریاست کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔ مغربی طاقتیں، جو طویل عرصے سے اسرائیل کی پشت پناہی کرتی آ رہی ہیں، اب خود اندرونی مسائل میں الجھ چکی ہیں۔ صہیونیت، جس نے اپنی بقا کا دارومدار مغربی طاقتوں کی حمایت پر رکھا تھا، اب اس حمایت کے کمزور ہونے کے آثار کو محسوس کر رہی ہے۔ The Cradle کی رپورٹ کے مطابق، جنگ کے آغاز سے ہزاروں کاروبار بند ہو چکے ہیں، اور The Times of Israel کے مطابق سیاحت اور صنعت کے شعبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ایک اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ "اسرائیلی معیشت بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ تاریخ اسرائیل میں اس قدر لوگوں نے ہجرت نہیں کی، جو ابھی ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر ہو چکی ہے۔ سیاحت کا شعبہ مکمل بند ہو چکا ہے۔ اسرائیلی صنعتی شہر ویران ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مزدور بیکار ہو چکے ہیں۔"
اس زوال کی بڑی وجہ اسرائیل کے اندرونی اختلافات اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بیداری ہے، اور اس بیداری کا جیتا جاگتا چہرہ ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے ہم آواز طاقتیں ہیں۔ جہاں فلسطینی قوم صبر و استقامت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، وہیں دنیا کے مختلف گوشوں سے انسانیت نواز قوتیں فلسطین کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، اور اب یہ ضمیر اس بربریت کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مقاومتی محاذ کے سوشل میڈیا کی طاقت
موجودہ دور میں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی طاقت نے صہیونیت کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہمدردان و فرزندان فلسطین کی مقاومت و مزاحمت، اسرائیلی فوجی مظالم اور عالمی سامراجی کھیل کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کر رہی ہے۔ صہیونیت کے لیے یہ نئے دور کی حقیقت ناقابل برداشت ہے، کیونکہ اب اس کے جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔
ایک مسلمہ تاریخی حقیقت
فلسطینی عوام کی بقا اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے عالمی تحریک میں شدت آ رہی ہے۔ صہیونی ریاست اپنی آخری کوششوں میں مزید ظلم و جبر کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت رہی ہے کہ جب کوئی استکباری طاقت مقاومتی تنظیموں سے شکست خوردہ ہو کر اپنے زوال پذیر ہونے کا احساس کرتی ہے تو مزید تباہی کا سہارا لیتی ہے، لیکن اس کی اس حرکت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
جیسا کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے گذشتہ جمعے کے خطبے میں فرمایا تھا، "جب بزدل دشمن مقاومتی تنظیموں کے خلاف جنگ میں ناکام ہوا تو دہشت گردی، نسل کشی اور قتل عام پر اتر آیا۔ لیکن کیا نتیجہ ملا؟" یہی ظلم ایک بڑی شکست کی علامت بن جاتا ہے۔ صہیونیت کی طاقت اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے، اور وہ وقت دور نہیں جب یہ باطل تحریک بھی تاریخ کے دیگر جابرانہ نظاموں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔
اسرائیل کی جابرانہ حکومت اور اس کے پس پردہ صہیونیت کی پالیسیاں اس کی حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس کے پشت پناہ امریکہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن کر رخصت ہونے والی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کبھی کسی جابرانہ نظام کو آغاز و اوائل میں ہی نیست و نابود نہیں کرتا، بلکہ یہ تاریخ کی مسلم حقیقت اور الہی مصلحت رہی ہے کہ ہر فرعونی سامراج کو ایک خاص مہلت دی جائے اور اسے اپنے پاؤں پسارنے کا موقع دیا جائے، تاکہ آخر میں اس کی اس طرح گرفت کی جائے کہ فرار کیلیئے کوئی بہانہ و چارۂ کار نہ رہ جائے۔
بہتر مستقبل کی امید
یقیناً آج کی دنیا میں، جہاں ایک طرف اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کا شعور بڑھتا جارہا ہے، وہاں دوسری جانب صہیونیت کی بنیادوں میں دراڑیں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور ان کی مزاحمت کا جذبہ نہ صرف ان کے وطن کی بازیابی کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے بھی ایک مشعل راہ ہے۔
بیداری اور استقامت
آج کے عہد میں، جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہر ایک کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، فلسطینی عوام کی مظلومیت کی کہانی پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ ہر روز نئی نسل کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو صہیونی مظالم کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ یہ بیداری نہ صرف فلسطینیوں کے لیے، بلکہ دنیا بھر کے انسانیت پسندوں کے لیے ایک نیا حوصلہ ہے۔ وہ قومیں جو اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔
صہیونیت کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے، عالمی سطح پر ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے، جو کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے اصولوں پر قائم ہو۔ اس میں وہ قوتیں شامل ہوں جو فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں اور صہیونی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم سب ایک مشترکہ مقصد کے تحت ایک جگہ اکٹھے نہ ہوں۔
نئی نسل کا کردار
نئی نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی جدوجہد صرف اپنے حق کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی بہبود کی جدوجہد ہے۔ فلسطین کی آزادی درحقیقت ہر مظلوم قوم کی آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا اور دنیا کے سامنے اپنی آواز کو مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے، وہ اپنے پیغام کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مستقبل کی امیدیں
یہ حقیقت ہے کہ صہیونی تحریک کا زوال ایک مثبت علامت ہے، جو کہ ایک نئی تاریخ کے آغاز کی خبر دیتی ہے۔ ہم اس وقت کو قریب دیکھ رہے ہیں جب اسرائیل کے مظالم کا خاتمہ ہوگا اور فلسطینی عوام اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کامیاب ہوں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب عالمی سطح پر انصاف کا بول بالا ہوگا اور ہر قوم کو اپنی شناخت اور حقوق کی آزادی ملے گی۔
آج کی دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صہیونیت کی جڑیں اگرچہ گہری ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مدد ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ رہی ہے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنے حق کی خاطر آواز اٹھائی، اللہ نے ان کی مدد کی۔ فلسطینی عوام کی استقامت اور ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ حق کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہوتا، بلکہ آخرکار حق کا بول بالا ہوتا ہے۔
آج کے اس دور میں، ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم ہر ممکن طریقے سے فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، ان کی آواز بننے کی ضرورت ہے، اور ان کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ صہیونیت کی شکست یقینی ہے، اور یہ بات ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ایک دن فلسطینی عوام اپنے وطن میں آزاد اور خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔
"اور ہمارے دلوں کی دعا ہمیشہ ان کے لیے ہے کہ اللہ ان کی مدد فرمائے اور انہیں فتح عطا فرمائے، کیونکہ اللہ کی مدد ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اپنے حق کے لیے لڑتے ہیں۔"