حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اتوار 27 اکتوبر 2024 کو ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
انھوں نے معاشرے کے تمام امور اور لوگوں کی زندگي کے مختلف پہلوؤں میں سیکورٹی کی بنیادی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک مضبوط ایران ہی ملک و قوم کی سلامتی و پیشرفت کو فراہم کر سکتا ہے اور اسے یقینی بنا سکتا ہے بنابریں ایران کو روز بروز تمام معاشی، علمی و سائنسی، سیاسی، دفاعی اور انتظامی پہلوؤں سے مزید مضبوط بنانا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے صیہونی حکومت کی دو رات پہلے کی شیطنت آمیز حرکت کے بارے میں کہا کہ وہ لوگ اپنے خاص اہداف کے تحت اس شیطنت کو بڑا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں لیکن اسے چھوٹا سمجھنا اور یہ کہنا کہ یہ کوئي خاص چیز نہیں تھی اور اس کی کوئي اہمیت نہیں تھی، یہ بھی غلط ہے۔
انھوں نے ایران کے بارے میں صیہونی حکومت کی اندازوں کی غلطی کو مٹا دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ایران کے سلسلے میں اندازے کی غلطی میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ ایران، ایرانی جوانوں اور ایرانی قوم کو نہیں جانتے اور ابھی وہ ایرانی قوم کی طاقت، توانائي، جدت عمل اور عزم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکے ہیں اور یہ بات ہمیں انھیں سمجھانی ہوگي۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کام کیسے ہونا ہے یہ ہمارے ذمہ داران کو صحیح طریقے سے طے کرنا چاہیے اور جو کچھ اس ملک اور قوم کے مفاد میں ہے، اسے انجام دینا چاہیے تاکہ وہ سمجھ جائيں کہ ایرانی قوم کون ہے اور اس کے جوان کیسے ہیں؟
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ یہ سوچ، یہ جذبہ، یہ شجاعت اور یہ آمادگي جو ایرانی قوم میں ہے اسے محفوظ رہنا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں خود ہی سیکورٹی پیدا کرنے والی ہیں۔ انھوں نے سیکورٹی کی فراہمی اور حفاظت کے اصل اور لازمی عناصر کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ اپنے عجیب تجزیوں کے تحت یہ سوچتے ہیں کہ میزائل جیسے سامراجیوں کو حسّاس کرنے والے وسائل کے پروڈکشن سے گریز، ایران کے لیے سیکورٹی کا سبب بن سکتا ہے لیکن یہ غلط سوچ دراصل ایرانی قوم اور ذمہ داران سے کہتی ہے کہ ملک کو کمزور رکھیے تاکہ آپ سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔
انھوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ایران کی جانب سے غیر جانبداری کے اعلان کے باوجود اس پر قبضے کو نا اہل یا غدار اور پٹھو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ان لوگوں نے طاقت کے حقیقی وسائل سے منہ موڑ کر ملک و قوم کو اپنی سلامتی کو یقینی بنانے میں کمزوری اور ناتوانی کی ذلت میں دھکیل دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں دس ہزار بچوں اور دس ہزار سے زیادہ عورتوں کی شہادت سمیت صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ میں انتہائي وحشیانہ جرائم کے ارتکاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو سب سے وحشیانہ جنگي جرائم کا مصداق ہیں، غزہ اور لبنان میں اس حکومت کی کارروائيوں کو روکنے میں بڑی حکومتوں اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی کوتاہی پر شدید تنقید کی۔
انھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ جنگ کے کچھ اصول، قوانین اور حدود ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ جنگوں میں تمام حدود کو پامال کر دیا جائے لیکن مقبوضہ علاقوں پر حکمرانی کرنے والے مجرم گینگ نے تمام حدود اور اصولوں کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مجرم صیہونی حکومت کے خلاف حکومتوں خاص طور پر اسلامی حکومتوں کے ڈٹ جانے اور اس جلّاد حکومت کے خلاف ایک عالمی اتحاد کی تشکیل کی ضرورت کو ضروری بتایا اور کہا کہ ڈٹ جانے کا مطلب معاشی مدد بند کرنا نہیں ہے کیونکہ واضح ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی مدد سب سے گھناؤنے اور سب سے بڑے گناہوں میں شامل ہے بلکہ ڈٹ جانے کا مطلب اس خبیث حکومت کے مقابلے میں، جو سب سے وحشیانہ جنگي جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، ایک عالمی سیاسی و معاشی اور ضرورت پڑنے پر فوجی اتحاد کی تشکیل ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں عوام کی نفسیاتی سلامتی کی ضرورت پر زور دیا اور ملکوں اور قوموں کے بدخواہوں کی جانب سے ہارڈ وار کے ساتھ سافٹ وار کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے نفسیاتی ماحول کو غیر محفوظ بنانا، اس سافٹ وار کا ایک ہتھکنڈہ ہے اور سبھی نے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح سائبر اسپیس سے اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے آخر میں سیکورٹی کے میدان کے شہیدوں کے اہل خانہ سے کہا کہ آپ لوگ سربلند رہیں اور اپنے شہیدوں پر فخر کریں کیونکہ اگر وہ اور سیکورٹی کے دوسرے محافظ نہ ہوتے تو ملک اور قوم کے لیے بہت سارے مسائل پیدا ہو جاتے۔