شاعر: مولانا عسکری امام خان جونپوری
پتہ ہمکو چلا اب تک کی یہ رسم و روایت سے
منافی ہے کوئی عہدہ کسی باغی طبیعت سے
ہُوا گر گرم پھر بازار یوسف کی تجارت سے
پلٹنا ہے جوانی پھر کسی کی اپنی قسمت سے
خریدا جا سکا نہ پھر کسی ملکی ریاست سے
عزیز مصر پھر اک بار پلٹا ہے طبیعت سے
نوازا تھا جسے خالق نے اپنے علم و حکمت سے
منور کر دیا تھا جس کا دل نور ہدایت سے
بہت راضی تھا وہ آگاہ تھا رازِ مشیت سے
خدا کا شکر، تھی جس کی ضرورت ایک مدت سے
طلوع وہ آفتابِ حق ہوا برجِ فقاہت سے
پسینہ ہے جبینِ ظلم پر جس کی تمازت سے
بصد افسوس چھایا تھا ہر اک سو نزع کا عالم
شرافت، عزت و ناموس کا تھا ہر طرف ماتم
اصولِ زندگی کچھ ہوچکا تھا اس قدر برہم
بسر کرنے لگے حیوان کی صورت بنی آدم
پکارا روحِ انسانی نے اس دم پاس و حسرت سے
خمینی لیکے دورِ زندگی آئے مشیت سے
خمینی نام ہے معیارِ عدل وعلم وحکمت کا
وفا ایثار صبر و شکر اخلاص و محبت کا
شرافت، زہد، تقویٰ، حلم ہر گوشہ فضیلت کا
سراپا آئینہ صدق وصفا خلق ومروت کا
کیا آراستہ یوں خود کو اوصافِ نبوت سے
لگے ہیبت سے موسیٰ حضرت یوسف شباہت سے
تنِ تنہا اٹھا اور ساری ملت کو بدل ڈالا
ادائے پاک سے ناپاک فطرت کو بدل ڈالا
زباں کھولی تو تاریخ سیاست کو بدل ڈالا
مجاہد بن کے پل بھر میں حکومت کو بدل ڈالا
بتایا تونے: ہیں سرشار جو ایماں کی دولت سے
ڈرایا جا نہیں سکتا انھیں زور حکومت سے
گزارا تونے ہر لمحہ ثنائے کل غالب میں
سمٹ آیا تھا دریا علم کا تیرے مطالب میں
نہیں باقی ہے جرأت بیعت باطل کے طالب میں
ثنا ممکن نہیں تیری کبھی لفظوں کے قالب میں
تجھے منزل ملی آگے نکل کر حد رفعت سے
جہاں پر قدسیوں نے سر جھکائے پاس حرمت سے
مسلماں کا ہو امریکہ سپر طاقت؟ تعجب ہے
غرور دولت دنیا میں بے حرکت؟ تعجب ہے
خدا کا نام لیتے ہیں یہ بے غیرت، تعجب ہے
پڑھیں کلمہ نبی کا اور نہ ہو جرأت تعجب ہے
خمینی یہ بتا آئے منافق کی جماعت سے
علی والے نہیں بکتے کبھی دنیا کی دولت سے
دعا ہے محضر خالق میں بس یہ عسکری اپنی
کبھی نہ منحرف ہو راہِ حق سے زندگی اپنی
کہ خود ہی کہہ اٹھے مثل خمینی یہ خودی اپنی
رضا خالق کی جو ہوگی وہی ہوگی خوشی اپنی
بنوں محبوبِ ربّ دوجہاں جلبِ رضایت سے
چراغاں عالم عرفان ہو اپنی عبادت سے
آپ کا تبصرہ