بدھ 26 فروری 2025 - 10:00
قیادت کے بحران اور حقیقی لیڈرشپ کی شناخت!

حوزہ/قیادت کا لفظ اصل میں عربی سے ماخوذ ہے، جس کا معنی رہنمائی، سربراہی اور رہبری کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاح میں کسی گروہ، ٹیم یا تنظیم کا مقررہ سربراہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متعلقہ ٹیم یا تنظیم کو مشخص ہدف تک پہنچانے کو قیادت کہا جاتا ہے۔

تحریر :عارف ارمان

حوزہ نیوز ایجنسی| قیادت کا لفظ اصل میں عربی سے ماخوذ ہے، جس کا معنی رہنمائی، سربراہی اور رہبری کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاح میں کسی گروہ، ٹیم یا تنظیم کا مقررہ سربراہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متعلقہ ٹیم یا تنظیم کو مشخص ہدف تک پہنچانے کو قیادت کہا جاتا ہے۔

امام المتقین، امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب نے نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ نہج البلاغہ میں تقریباً 69 مقامات پر قائد، رہبر اور قیادت کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے، جن میں لیڈرشپ کو امامت، امارت، حکومت، ولایت اور قیادت جیسے دیگر مشتقات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ رعد آیت 7 میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ" "آپ صرف ایک ڈرانے والے ہیں، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔"

قرآن کی مذکورہ آیت اور نہج البلاغہ میں مولا علی علیہ السلام کے متعدد مقامات پر قیادت سے متعلق گفتگو اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ قائد، رہنما اور رہبر کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتی۔ لہذا، اگر ترقی کے مراحل طے کرنا مقصود ہو تو قائد کی پیروی ہر فرد پر ضروری ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ہر وہ شخص جو سوسائٹی میں قائد کا شعار بلند کرے، قابل قبول ہے یا قائد کی کچھ خاص شرائط اور معیارات ہیں؟ راقم السطور کا بنیادی ہدف اسی سوال کا جواب دینا ہے۔ مصداق کی تلاش ہم قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں قیادت سے مراد قائد کا عرفی اور مشہور معنی ہے، جسے سیاسی دنیا میں لیڈرشپ کہا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرتی تناظر میں، لیڈر کا تصور عموماً ایسے شخص کا ہے جو مکّاری، ضمیر فروشی، دوغلاپن، اور دغابازی میں مہارت رکھتا ہو۔ ایسے افراد عوام کی سادہ زیستی کو بےوقوفی سمجھ کر ان سے سوء استفادہ کرتے ہیں۔ یہ صورت حال قیادت کے بحران کی ایک علامت ہے۔ جہاں حقیقی لیڈر کی خصوصیات جیسے ایمانداری، دیانت داری، اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کا جذبہ، کہیں نظر نہیں آتیں۔

ایسے لیڈروں کی موجودگی سے، جو صرف اپنی ذات کی خاطر عوام کی حمایت حاصل کرتے ہیں، سوسائٹی میں بدعنوانی اور بے ایمانی کا رجحان بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، عوام کا اعتماد ان لیڈروں سے اٹھ جاتا ہے اور ایک بحران کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ حقیقی قیادت کا فقدان معاشرتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

لہذا، ایک حقیقی لیڈر کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کی ضروریات کو سمجھے، ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں اور صحیح معنوں میں ایک رہنما بن کر سامنے آئیں۔ قیادت کی صورت میں صرف خود غرضی اور عیاری کو نہیں بلکہ عوام کی خدمت اور رہنمائی کا جذبہ ہونا چاہیے، تاکہ قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

جاری ہے۔۔۔۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha