از قلم: مولانا محمد ابراہیم نوری
ہوا میں رب کی قسم کامیاب سجدے میں
صدا یہ دینے لگے بو تراب سجدے میں
ہمیشہ دیکھا جو خوابِ شہادتِ عظمیٰ
علی کو مل گئی تعبیرِ خواب سجدے میں
عدوئے فاتح بدر و حنین ہار گیا
علی ہیں پیشِ خدا فتحیاب سجدے میں
زمین روتی ہے، ماہ و نجوم روتے ہیں
غضب ہے مارا گیا آفتاب سجدے میں
یہ کہہ کے وار کیا حسبُنا کتاب اللہ
گئے جو عالمِ علمِ الکتاب سجدے میں
خدایا مجھ سے ادا حقِ بندگی نہ ہوا
علیٔ یہ کہہ کے ہوئے آب آب سجدے میں
گواہ کربوبلا بھی ہے شہرِ کوفہ بھی
ہوئے شہید مہ و آفتاب سجدے میں
نبی کی بیٹی کے در کو جلانے والوں نے
گرایا شہرِ نبوت کا باب سجدے میں
تمہارے فیض سے اے سجدۂ علیٔ و حسینٔ
ہوا ہے عشق کا کامل نصاب سجدے میں
اسی کو کہتے ہیں ہر رخ سے سرخرو ہونا
کوئی ہے خوں سے بہ حالِ خضاب سجدے میں
یہ جان بوجھ کے تیغ ستم چلائی گئی
کہ خم تھا پیکر اسلام نام سجدے میں
دعا کرو کہ رہِ مرتضیٰ میں موت آئے
اے لوگو ہوگی دعا مستجاب سجدے میں
چلے ہیں جانبِ مسجودحق علیٔ نوریَ
خدا کے عشق کی پی کر شراب سجدے میں
از قلم: ابراہیم نوریَ قمی
آپ کا تبصرہ