شاعر: مولانا محمد ابراہیم نوریَ
زمانہ دیکھ لے یہ انقلاب نیزے پر
کوئی خطیب ہے محوِ خطاب نیزے پر
فلک پہ شمس، قمر اور نجوم روتے رہے
زمیں پہ دیکھا جو اک آفتاب نیزے پر
کہیں بلند کتابِ خدا سناں پر ہے
کہیں ہیں عالمِ علم الکتاب نیزے پر
یہ سوچ سوچ کے ہم آبدیدہ ہو رہے ہیں
سکینہ خیمے میں ہیں مشک آب نیزے پر
خدا کرے کہ یہ منظر انہیں دکھائی نہ دے
ہے رأسِ اصغرِ اُمِ رباب نیزے پر
بنا ہے جسمِ مطھر تو زینتِ مقتل
ہے سرخرو سرِ عزت مآب نیزے پر
خلیل نے جو مِنیٰ کی زمین پر دیکھا
ہے ان کے خواب کی تعبیرِ خواب نیزے پر
مہک رہی ہیں فضائیں انہیں کی خوشبو سے
ہیں سرخرو جو بہتر گلاب نیزے پر
نہیں فقط یہ نہیں ہے سرِ علی اکبرٔ
حبیبِ رب کا ہے نوریَ شباب نیزے پر
از قلم: مولانا محمد ابراہیم نوریَ قمی









آپ کا تبصرہ