تحریر: الحاج مولانا ابن حسن املوی کربلائی
حوزہ نیوز ایجنسی| حج اسلام میں وہ عظیم الشان عبادت ہے جو تمام عبادتوں کا خلاصہ اور مجموعہ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جس نے ایک مرتبہ حج کر لیا وہ ہمیشہ کے لیے حاجی کے لقب سے سرفراز ہوگیا اور یہ لقب مرنے کے بعد بھی مرحوم کے نام کے ساتھ ساتھ ملحق رہا، جبکہ زندگی بھر نماز ،روزہ ،زکوٰۃ و خیرات وغیرہ ا دا کرتے رہے پھر بھی کبھی نمازی یا روزہ دار وغیرہ کا خطاب نہیں ملا۔
قرآن مجید کی آیات اور ائمہ معصومین علیہم السلا کی احادیث مبارکہ میں حج کے بے پناہ فضائل و مناقب،فیوض و فوائد اور ثمرات و برکات بیان کئے گئے ہیں۔حضرت امام صادق - سے روایت ہے کہ جو اپنے واجب حج میں تاخیر کرے یہاں تک کہ وہ مرجائے ( وہ قیامت کے دن اندھا ہوگا) اور جو اس دنیا میں اندھا وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکاہوا رہے گا ۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے :جو بھی اپنے واجب حج کو کسی عذر کے بغیر ترک کرے وہ قیامت میں یہودی یا نصرانی محشور ہوگا ۔
حضرت امام صادقؑ کی حدیث میں حج کے فیوض وفوائد بیان ہوئے ہیں :جو حج اور عمرہ کو بجالاتے ہیں وہ خدا کے مہمان ہیں ۔وہ خدا سے جو چاہتے ہیں وہ انہیں عطا کرتا ہے ۔وہ جو بھی دعا کریں خدا ان کی دعاؤوں کو بھی قبول کرتا ہے اور وہ اگر کسی کی شفاعت کریں ،تو وہ قبول ہوتی ہے ۔ اور اگر اسی راہ میں مرجائیں تو پروردگار ان کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جو پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوئی ہے: الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنة ۔ قبول ہوئے حج کی جزاء جنت کے بغیر کچھ اور نہیں ہو سکتی !
تیسری حدیث بھی آنحضرت (ص) ہی سے منقول ہے : ( من حج البیت۔۔۔ خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ )جو حج انجام دیتا ہے وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتاہے جیسے اسی دن اپنی ماں کے شکم سے جنم لیا ہو۔ یہی سب سے بڑا ہدیہ ، عالیشان افتخار اور بہترین جزا ہے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب بیت اللہ شریف کی تعمیر پوری مکمل کر دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔
حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا:
’’یا اللہ! میری آواز کس طرح پہنچے گی۔ یہاں ہم تین آدمیوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ابراہیم! آواز پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
قرآن مجید میں سورۂ حج کی آیت 27 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا:"
’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلے اونٹ پر دور دراز کے راستوں سے آئیں گے۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ نے حج کا اعلان کر دیا۔ اس آواز کو آسمانوں اور زمین میں اور اس کے درمیان جتنی بھی مخلوق ہے سب نے سنا۔
حضرت ابراہیمؑ کا حج کا اعلان اور لوگوں کا لبیک کہنا:
شیعہ مفسرین کے مطابق، حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حج کا اعلان کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آواز کو تمام انسانوں تک پہنچایا۔ جو بھی اس وقت موجود تھا یا عالم ارواح میں تھا، اس نے اس آواز پر لبیک کہا۔اور جس نے جتنی بار لبیک کہا اتنی بار حج کرےگا۔
تین حج کرنے والے پر آگ حرام ہونے کی روایت:
شیعہ احادیث میں یہ مضمون موجود ہے کہ جو شخص تین حج ادا کرے، اللہ تعالیٰ اس کے بال اور کھال کو جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ مثلاً، امام محمد باقرؑ سے روایت ہے:"جو شخص تین حج کرے، اس کے جسم پر آگ حرام ہو جاتی ہے۔"
اسی طرح، امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے:"جو شخص تین حج کرے، وہ فقر اور محتاجی سے محفوظ رہتا ہے اور قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔"
یہ روایات شیعہ حدیث کی کتب میں موجود ہیں، جیسے کہ’’ثواب الاعمال ‘‘ از شیخ صدوق ،اور ’[الکافی‘‘ از شیخ کلینی۔کتاب الوافی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۰۰۔ وسائل الشیعہ،ج ۸، ابواب وجوب الحج ، باب ۶ ، حدیث ۵۔
اور ایک عبرتناک قصہ:
ایک جماعت سعدون خولانیؒ کے پاس آئی اور ان سے یہ قصہ بیان کیا کہ قبیلہ کنامہ کے لوگوں نے ایک شخص کو قتل کر دیا۔
رات بھر اس پر آگ جلاتے رہے مگر آگ نے اس پر ذرا بھی اثر نہیں کیا۔ سعدونؒ نے فرمایا:
’’شاید اس شخص نے تین حج کئے ہونگے۔‘‘
لوگوں نے کہا۔ ’’جی ہاں! اس نے تین حج کئے تھے۔‘‘
سعدونؒ نے کہا۔’’مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے اپنا فریضہ ادا کیا۔ جس نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کو قرض دیا اور جو تین حج کرنا ہے تو اللہ جل شانہ اس پر آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘
المختصر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا حج بیت اللہ کے لئے آج بھی دنیا کے قرب و جوار اور دور و دراز ہر گوشہ و کنار سے سفر عشق خدا جاری وساری ہے اور قیامت تک یوں ہی چلتا رہےگا ان شاءاللہ ۔یہ دعائے خلیل اللہ کا اثر بھی ہے اور خالق کائنات کا مقصد بھی۔
حج کی عظمت و فضیلت کے لئے یہ کیا کم ہے کہ حج ہی کے موقع پر تکمیل دین اور اتمام نعمت کا پیغمبر اسلام نے بحکم خدا قرآنی پیغام سنایا۔
حج ہی کا وہ نورانی اور روحانی عظیم اجتماؑ ع ہے جس کے اختتام پر اعلان ولایت علی ابن ابی طالب ؑ کے لئے ایک سر سبز و شاداب اورلق و دق میدان جحفہ ’غدیر خم‘‘ کا نظر قدرت نے انتخاب فرمایا۔اورمرسل اعظم ؐ نے بڑے طمطراق ،نرالے اہتمام او انتظام کے ساتھ پر جوش اور فخریہ انداز میں انداز میں پالان شتر کے منبر کی بلندی سے قرآنی پیغام پہنچایا، آج کے دن اللہ نے دین اسلام کو ہمارے لئے پسند فرمالیا ہے اور ’’جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ مولا ہیں‘‘۔ اس لئے بھی شیعہ عازمین حج کو’’ غدیر خم‘‘ کی زیارت ضرور کرنا چاہیئے۔ بیشک جب تک کعبہ موجود رہے گا تب تک دین قائم رہے گا اور دین و ایمان کی بقا وسلامتی کا راز ولایت ِ علیؑ میں مضمر ہے۔
یاد رہے کہ حج ہی وہ عظیم موقع عبادت ہے جس میں وارث ابراہیم خلیل اللہ اور وارث محمد مصطفےٰ یعنی امام زمانہؑ ہر سال برابر شریک اور موجود ہوتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ