اتوار 15 جون 2025 - 17:52
مزاحمتی مرکز؛ ایران نے غاصب ریاست کے خلاف جنگ کے توازن کو کیسے بدل دیا؟

حوزہ/ مزاحمتی مرکز، اسلامی جمہوریہ ایران کا غاصب صیہونی حملے کا فوری اور سخت جواب؛ نہ صرف تل ابیب کے ایوانوں میں شدید خوف و ہراس اور گھبراہٹ کا باعث بنا ہے، بلکہ ایران کے اس بلا تاخیر اور جرأت مندانہ اقدام نے خطے میں طاقت کے توازن کو نیز ایک نئے مرحلے میں داخل کروا دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؛ مزاحمتی مرکز، اسلامی جمہوریہ ایران کا غاصب صیہونی حملے کا فوری اور سخت جواب؛ نہ صرف تل ابیب کے ایوانوں میں شدید خوف و ہراس اور گھبراہٹ کا باعث بنا ہے، بلکہ ایران کے اس بلا تاخیر اور جرأت مندانہ اقدام نے خطے میں طاقت کے توازن کو نیز ایک نئے مرحلے میں داخل کروا دیا ہے۔

غاصب صیہونی حکومت نے شیطان بزرگ امریکہ کی حمایت سے بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی سرزمین پر حملہ کیا، جو کہ دراصل اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

اس حملے میں مزاحمتی مرکز ایران کے اہم کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، جو کہ غاصب اسرائیل کی ایک خطرناک غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔

یروشلم پر قابض ریاست نے یہ گمان کیا تھا کہ وہ لبنان کے تجربے کو دہرا کر ایران کو بھی ایک سیکیورٹی اور عسکری خلاء میں دھکیل دے گا، تاکہ ایرانی ردعمل کو یا تو روکا جاسکے یا کم از کم مؤخر کیا جاسکے؛

لیکن امام المقاومہ ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای نے مدبرانہ اقدام کے ساتھ بہت ہی تیزی سے عسکری قیادتوں میں تبدیلیاں کیں۔ اعلیٰ عسکری قیادت نے دفاعی نظام کو فوراً فعال کیا اور دشمن کو عملی طور پر اس کی غلط فہمی کا تلخ مزہ چکھا دیا۔

فضائی محاذ پر جنگ کا نیا توازن

غاصب صیہونی ریاست کی فوجی حکمت عملی میں فضائیہ کا مرکزی کردار ہے۔ F-35 طیاروں کو اس کی سب سے بڑی برتری سمجھا جاتا تھا۔ ان طیاروں کو ناقابلِ شناسائی اور ناقابلِ شکست تصور کیا جاتا تھا، لیکن ایران کے مقامی دفاعی نظام کے ذریعے F-35 طیاروں کی بروقت شناخت اور تباہی نے نہ صرف اسرائیل، بلکہ شیطان بزرگ امریکہ کی فوجی طاقت پر بھی کاری ضرب لگائی۔

اس موقع پر بین الاقوامی ذرائع نے ایران کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ایران نے اسرائیل کے جدید ترین پانچویں نسل کے جنگی طیارے جیسے F-35 کو مار گرایا ہے۔ یہ طیارہ جسے "ناقابلِ تعاقب" کہا جاتا تھا، ممکنہ طور پر تاریخ میں پہلی بار کسی جنگ میں تباہ ہوا ہے۔

F-35 جنگی طیارے امریکہ کی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیے ہیں، جو تین ماڈل A، B اور C پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے B ماڈل مختصر رن وے سے اڑان اور عمودی لینڈنگ کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ C ماڈل کو طیارہ بردار بحری جہازوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

غاصب اسرائیل نے اکتوبر 2010 میں ان طیاروں کی پہلی خریداری کا معاہدہ کیا تھا، جس میں ابتدائی طور پر 19 طیارے 2.75 ارب ڈالر میں حاصل کیے گئے۔ فروری 2015 میں مزید 14 طیارے خریدے گئے اور مجموعی طور پر اسرائیل کو 75 طیارے حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔

F-35 کی سرنگونی نے امریکہ اور اسرائیل کے عسکری بیانیے کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ یہ محض ایک ٹیکنیکل نقصان نہیں، بلکہ نفسیاتی اور اسٹریٹجک سطح پر بھی ایک بڑی شکست ہے، جو برسوں سے قائم اس تصور کو توڑ چکی ہے کہ امریکہ کی فضائی طاقت ناقابلِ تسخیر ہے۔ ایران نے نہ صرف دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا، بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ ہر سطح پر دفاع کے لیے تیار ہے۔

مزاحمتی مرکز ایران کا حملہ؛ غاصب صیہونی حکومت کے لیے سرپرائز

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے صیہونی غیر قانونی اور غیر انسانی جارحیت کے جواب میں داغے گئے بیلسٹک میزائلوں نے صیہونی حکام کو مکمل طور پر حیرت میں ڈال دیا ہے اور یہ سلسلہ ایرانی حکام کے مطابق غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔

مختلف اطلاعات کے مطابق، مزاحمتی مرکز ایران کی جانب سے اب تک کے سلسلہ وار میزائل حملوں میں مقبوضہ یروشلم میں متعدد مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ البتہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ غاصب صیہونی حکومت شدید سنسرشپ نافذ کیے ہوئے ہے، لیکن اسرائیل میں موجود بین الاقوامی میڈیا نے تباہی کی ایسی تصاویر شائع کی ہیں جو ان حملوں کی وسعت اور اثرات کو آشکار کرتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ صیہونی حکومت نے امریکہ کی مدد سے مہینوں ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن ایران نے انتہائی کم وقت میں جوابی حملہ کر کے نہ صرف تل ابیب کو ہلا کر رکھ دیا، بلکہ صیہونی حلقوں میں ایرانی عسکری طاقت کا خوف بٹھا دیا ہے۔

دفاعی و عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران کی مسلسل جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں آئندہ چند دنوں میں تل ابیب کو بھاری نقصان ہوگا۔

دفاعی طاقت میں اضافہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت

ایران کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کے دو بڑے منصوبے رہے ہیں: لیبیا میں ہونے والے تجربے کو اپنا کر مذاکرات سے ایران کو اندر سے توڑنا اور شام کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی مداخلت و تخریب کے ذریعے ایران کو میدان جنگ میں بدل دینا۔

مغربی و عبری محاذ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ایران کو اس کی طاقت کے بنیادی عناصر سے محروم کر دے۔ دشمن کی یہی حکمتِ عملی، ایران کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی دفاعی قوت کو نہ صرف محفوظ رکھے، بلکہ اس سے مسلسل ترقی دے۔

دوسرے لفظوں میں ایران کی فوجی طاقت کو اس مقام تک پہنچنا ضروری ہے کہ صیہونی حکومت دوبارہ کسی قسم کے حملے کی جرأت نہ کر سکے اور ایران کے ساتھ ہمیشہ خوف و احتیاط کے اصول پر معاملہ کرے۔ ایران کے دفاعی نظام کا جدید ترین F-35 جنگی طیارے کو سرنگوں کرنا اسی دفاعی طاقت کی اہم علامت ہے۔

البتہ یہ سہرا ایرانی فضائیہ کے سربراہ شہید میجر جنرل امیر علی حاجی زادہ کے سر سجتا ہے، کیونکہ ان کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران نے آپریشن وعدہ صادق 1 اور 2 کے نام سے حملے کی طاقت کے میدان میں بھی وہ توازن حاصل کیا ہے جس نے خطے میں طاقت کا توازن یکسر تہران کے حق میں بدل دیا۔

امید ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسی راستے پر ثابت قدم رہے گا اور دشمن کی ہر سازش کو پہلے سے زیادہ مؤثر انداز میں ناکام بنانے کی صلاحیت حاصل کرتا رہے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha