حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے آیہٴ شریفہ «وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا» کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا: خداوند کی نعمتیں بے شمار ہیں، لیکن شکر کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب انسان نعمت کو پہچانتا ہے اور اسے اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے، نہ کہ اپنے آپ یا اسباب و وسائل کی طرف۔ اگر انسان نعمت کا منبع خود کو سمجھے تو وہ قارون جیسے غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بہت سے انسان نعمتوں کے سمندر میں غرق ہیں لیکن ان کی طرف متوجہ نہیں۔ اگر کوئی شخص نعمت سے فائدہ اٹھائے مگر اس کے منبع کا شعور نہ رکھے تو وہ درحقیقت شکر ادا نہیں کر رہا۔
حجت الاسلام والمسلمین میرباقری نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی حدیث «ما کثر مال رجل قط إلا عظمت علیه الحجة» کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: دولت و نعمت میں اضافہ دراصل ذمہ داریوں میں اضافہ ہے۔ نعمت، صرف عطا نہیں بلکہ ایک امانت اور الٰہی امتحان بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شکر کا حقیقی مفہوم روایت «الشُّکر اجتناب المحارم» کے مطابق گناہوں سے اجتناب ہے۔ اگر کوئی شخص خدا کی نعمت کو پائے اور اسے گناہ کے راستے میں استعمال کرے تو وہ شکر گزار نہیں کہلائے گا۔
انہوں نے گناہ کے ظاہر و باطن کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ ظاہری گناہ جیسے جھوٹ، غیبت اور حرام مال کھانا قابل فہم ہیں، لیکن گناہ کا باطنی پہلو ولایتِ طاغوت میں داخل ہونا اور دشمنانِ خدا کے راستے پر چلنا ہے۔
مجلس خبرگان کے رکن نے کہا کہ اگر انسان خدا کی نعمت کو لے کر اسے راہِ خدا میں خرچ کرے اور شیطان کے راستے میں استعمال نہ کرے، تو یہ شکر کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اس سے انسان کی روحانی ترقی ممکن ہوتی ہے اور وہ قربِ الٰہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا: شکر ایک تربیتی اور ولائی راستہ ہے جو نعمت کی شناخت، اس کی نسبت اللہ کی طرف دینا، اسے راہِ ولایت میں خرچ کرنا، اور گناہ سے بچنے سے مکمل ہوتا ہے۔ یہ شکر کا حقیقی مفہوم ہے۔









آپ کا تبصرہ