حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، سیاسی محقق حجت الاسلام والمسلمین مهدی مشکی باف نے بصیرت افزائی کے آن لائن نشستوں کے سلسلے میں «آینده پیش رو؛ احزاب، حُنین یا احد؟» کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم اس وقت ایک حساس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جہاں آئندہ جنگ کا امکان بہت قوی ہے اور اگر ہم تیاری نہ رکھیں تو شدید نقصان ہوگا اور اگر آمادہ ہوں تو کامیابی یقینی ہے۔ یہی آمادگی طے کرے گی کہ ہمارا انجام جنگ احزاب جیسا ہو گا یا صلح حدیبیہ یا پھر فتح مکہ۔
انہوں نے کہا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ نے ایران پر دو بار حملہ کیا اور دونوں بار شکست کھا کر جنگ بندی کی درخواست دی۔ پہلا حملہ "پنجه عقاب" کے نام سے صحرائے طبس میں ہوا جو خدائی مدد اور صحرائی طوفان کی وجہ سے ناکام ہوا۔ دوسرا حملہ فردو پر ہوا جس کے بعد العدید میں امریکی افواج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔
حجت الاسلام مشکی باف نے کہا: ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے لیکن اس بار یہ ہم طے کریں گے کہ ہم اس تاریخ کے کس رخ پر کھڑے ہوں گے۔ اگر ہم صرف اس حدیث پر اکتفا کریں کہ "الحمد لله الذی جعل اعداءنا من الحمقی" (شکر خدا کا کہ اس نے ہمارے دشمنوں کو احمق قرار دیا) اور میدان میں ہمارے افواج کی عظیم شجاعت اور حکمت عملی کو نظر انداز کریں تو شاید انصاف نہیں ہوگا چونکہ حالیہ جنگ میں ہماری مسلح فورسز غیر معمولی طور پر درخشاں اور کامیاب رہیں۔
انہوں نے کہا: اگر ہم دشمن کے حملے کو صرف ایٹمی مراکز کی نابودی تک محدود سمجھیں تو یہ بڑی غلطی ہے کیونکہ نتانیاهو نے ابتدا میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ان کا ہدف جمہوریہ اسلامی ایران کا تختہ الٹنا ہے۔
اس سیاسی محقق نے مزید کہا: ایرانی قوم کا داخلی اتحاد اور اجتماعی ہم آہنگی جو اس بحران میں نمایاں ہوئی، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دشمن اپنے ہدف میں ناکام رہا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ایرانی قوم کو پہچاننا ہے تو مشکل حالات میں پہچانو، جب ان کے ہیرو شہید ہوتے ہیں تو وہ کیسے ردعمل دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ایران کے حملے کا الگورتھم ناقابلِ پیش گوئی تھا مثلاً کبھی صبح، کبھی رات، کبھی ایک قسم کے میزائل، کبھی دوسرے۔ اس حکمت عملی نے دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا اور صہیونی شہریوں کو پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔
حجت الاسلام مشکی باف نے کہا: اس حملے نے واضح پیغام دیا کہ ایران جنگ کے معاملے میں کسی سے مروّت نہیں رکھتا حتیٰ کہ خطے کے قریبی ممالک کو بھی نہیں بخشتا۔ ایران نے دنیا کو دکھایا کہ اگر جنگ چھڑ جائے تو خطے کی کوئی فوجی چھاؤنی محفوظ نہیں رہے گی۔ یہی بات باعث بنی کہ خطے کے ممالک جنگ بندی کے لیے ثالث بنے۔
آخر میں انہوں نے کہا: خدا کی نصرت اور رہبر معظم انقلاب کی مدبرانہ قیادت اس کامیابی کی بنیادی وجہ تھی۔ اس جنگ میں رہبر انقلاب بنفسِ نفیس جنگی کمان کے مرکز میں موجود تھے اور حملے کی حکمت عملی خود طے کر رہے تھے اور یہی فتح ایران کا کلیدی نقطہ تھا۔









آپ کا تبصرہ