حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آل جموں و کشمیر شیعہ ایسوسی ایشن کی قیادت میں آج سرینگر میں ایک بڑے، پُرامن اور منظم احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ احتجاج ہندوستانی نیوز چینلز، انڈیا ٹی وی، زی نیوز ہندی اور آج تک کی جانب سے رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہای (مدظلہ العالی) کی شان میں گستاخانہ اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ پر شدید ردعمل کے طور پر کیا گیا۔
اس احتجاج میں جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، ذاکرین عظام اور ایسوسی ایشن کے اراکین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جو اس معاملے کی سنگینی اور حساسیت کا مظہر ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے سینئر ترجمان مولوی محمد شیخ ذاکری اور مولوی سید طیب رضوی نے اپنا سخت مؤقف پیش کیا۔
مولانا شیخ ذاکری نے کہا: آیت اللہ العظمیٰ خامنہای صرف ایک دینی پیشوا نہیں، بلکہ امت مسلمہ کے لیے روحانی، فکری اور انقلابی رہنما ہیں۔ اُن کی توہین دراصل پوری ملت اسلامیہ کی توہین ہے۔ ہم آئینِ ہند کا احترام کرتے ہیں اور پُرامن شہری ہیں، مگر مرجعیت ہماری ریڈ لائن ہے، جسے عبور کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔
مولانا سید طیب رضوی نے میڈیا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا: میڈیا کا اصل فریضہ عوام کو باخبر کرنا ہے، اشتعال انگیزی پھیلانا نہیں۔ ان نیوز چینلز کی نشر کردہ رپورٹنگ صحافت نہیں بلکہ دانستہ اور منظم گستاخی ہے۔ ہم ان اداروں سے بلا مشروط معافی کا مطالبہ کرتے ہیں، اور متعلقہ حکام سے فوری اور مؤثر کارروائی چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ احتجاج صرف ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔ اگر آئندہ بھی اس قسم کی بے ادبی دہرائی گئی، تو ہمارا اجتماعی ردعمل اس سے کہیں زیادہ شدید ہوگا۔
مولانا عمران انصاری کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا: جیسا کہ مولانا عمران انصاری نے اپنی مجلس میں کہا کہ مرجعیت ہماری ریڈ لائن ہے اور اس کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔"
آخر میں آل جموں و کشمیر شیعہ ایسوسی ایشن نے جمہوری اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اور حکومتِ ہند و میڈیا ریگولیٹری اداروں سے پرزور مطالبہ کیا کہ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے خلاف فوری اور فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔
ایسوسی ایشن نے دیگر میڈیا اداروں کو بھی متنبہ کیا کہ آئندہ مذہبی معاملات پر بات کرتے وقت ذمہ داری، سنجیدگی اور احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔









آپ کا تبصرہ