ہفتہ 9 اگست 2025 - 15:00
زائرین کے ساتھ ایران میں زیرِ تعلیم طلبہ کی سفری مشکلات ایک حل طلب مسئلہ

حوزہ/امام حسینؑ اور شہدائے کربلا سے محبت ہر مسلمان کے دل میں رچی بسی ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو رنگ، نسل، زبان یا مذہب کی قید سے آزاد ہو کر ہر پاک فطرت اور با ضمیر انسان کے دل کی دھڑکن میں سما جاتا ہے۔ اربعین کے ایام میں یہ محبت ایک اجتماعی موج کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جب لاکھوں لوگ کربلا کی سمت رواں دواں ہو کر امام عالی مقامؑ کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے اور ان کے مشن سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔

تحریر: مولانا سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام حسینؑ اور شہدائے کربلا سے محبت ہر مسلمان کے دل میں رچی بسی ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو رنگ، نسل، زبان یا مذہب کی قید سے آزاد ہو کر ہر پاک فطرت اور با ضمیر انسان کے دل کی دھڑکن میں سما جاتا ہے۔ اربعین کے ایام میں یہ محبت ایک اجتماعی موج کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جب لاکھوں لوگ کربلا کی سمت رواں دواں ہو کر امام عالی مقامؑ کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے اور ان کے مشن سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔

پاکستان کے ہزاروں زائرین بھی ہر سال کی طرح اس سال بھی اسی جذبے سے سرشار کربلا جانے کی تیاریوں میں مصروفِ تھے۔ مگر اس بار حکومت نے ملکی مصلحت کے تحت بائی روڈ سفر پر پابندی عائد کر دی۔ فیصلہ اپنی جگہ، لیکن اس سے عوام میں اضطراب، غم اور غصہ پیدا ہونا فطری امر تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ علما و قائدین نے حالات کو بگڑنے نہیں دیا اور مذاکرات و مکالمے سے حل نکالنے کی کوشش کی۔

اس تناظر میں گورنر سندھ کا کردار قابلِ تعریف ہے، جنہوں نے وفاقی حکومت اور قائدین کے درمیان ایک ایسا طریقہ کار اپنایا جو نہ صرف انتظامی مہارت بلکہ سیاسی بصیرت کا بھی مظہر تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا اور ممکنہ بحران ٹل گیا۔

لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ زائرین کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا، مگر ایک اور مسئلہ بدستور توجہ کا منتظر ہے وہ ہے ایران کی جامعات میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کا معاملہ۔

المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی، تہران یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں سینکڑوں پاکستانی طلبہ یا تو ذاتی اخراجات پر یا اسکالرشپ کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعطیلات کے دوران یہ طلبہ اپنے اہلِ خانہ سے ملنے پاکستان آئے،ہوئے ہیں۔مگر اب واپسی کے مرحلے پر سفری مسائل میں الجھ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، اور بیرونِ ملک رہتے ہوئے تعلیمی اخراجات کے ساتھ مہنگا سفر برداشت کرنا ان کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔

یہ وہ نوجوان ہیں جو نہ صرف علم حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر اسلامیات کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باعث اخوت، بھائی چارے اور اتحاد کا پیغام بھی عام کر رہے ہیں۔ یوں یہ پاکستان کے اصل سفیر ہیں۔ وہ سفیر جو سرکاری خزانے پر نہیں بلکہ اپنی محنت اور علم کے بل پر وطن کا وقار بلند کر رہے ہیں۔

حکومت سے گزارش ہے کہ ان طلبہ کے لیے فوری اقدامات کرے۔ کراچی سے ریمدان اور کوئٹہ سے میرجاوہ بارڈر تک خصوصی یا رعایتی ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، یا کم از کم ایک دو پروازیں طلبہ کے لیے مختص کی جائیں تاکہ وہ بلا معاوضہ یا رعایتی کرایے پر ایران جا سکیں۔

گزشتہ ماہ میں ایران اسرائیل جنگ کے دوران پاکستانی شہریوں اور طلبہ کی واپسی میں حکومت کا مثبت کردار عوام کے ذہنوں میں آج بھی محفوظ ہے۔ آج وقت ہے کہ وہی اعتماد اور خوشگوار تاثر ایک بار پھر قائم کیا جائے۔ یہ محض طلبہ کی نہیں، بلکہ پاکستان کے علمی، ثقافتی اور سفارتی وقار کی حفاظت کا سوال ہے۔

حکومت کو سوچنا ہوگا کہ ایسے نوجوان جو وطن سے محبت اور علم دونوں کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں، ان کا سفر آسان بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ ذمہ داری جتنی جلد ادا کی جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha