منگل 16 ستمبر 2025 - 19:41
اسلام، روحانیت اور حوزہ، انقلابِ اسلامی کے استحکام کے بنیادی ستون ہیں: آیت اللہ شب زندہ دار

حوزہ/ حوزہ علمیہ کی سپریم کونسل کے سربراہ آیت اللہ شب زندہ دار نے کہا ہے کہ اسلام محمدی مرحلہ حدوث میں، اسلام حسینی مرحلہ بقاء میں، اور اسلام حوزوی مرحلہ استمرار میں تین ایسے بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر حقیقی اسلام کی درست تفہیم اور اس کا عملی ظہور ممکن نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ شب زندہ دار جہرمی نے شیراز میں حرم سید علاءالدین حسین علیہ السلام میں منعقدہ حوزہ علمیہ فارس کے نئے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حوزہ ہائے علمیہ کے کردار کو انقلاب اسلامی کی پیدائش، بقاء اور اہداف کی تکمیل میں بنیادی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حوزہ ہائے علمیہ نہ ہوتے تو اسلام صفحۂ ہستی سے محو ہو جاتا۔ حوزات علمیہ نہ صرف میراثِ دینی کے محافظ ہیں بلکہ ایران کی معاصر تاریخ میں سماجی و سیاسی تحولات کے حقیقی محرک بھی رہے ہیں۔

آیت اللہ شب زندہ دار نے امام خمینیؒ کو حوزہ ہائے علمیہ کی بابرکت ثمرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ یہ انقلاب درحقیقت اس ملک کے گوشہ و کنار میں علما اور روحانیت کی ہزار سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ امام خمینیؒ کو بھی یہی عرض کیا گیا کہ انقلاب اسلامی کئی قرن کی مسلسل کوششوں کا ثمر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر روحانیت شہروں اور دیہاتوں میں موجود نہ ہوتی تو عوام اور اسلام کے درمیان یہ گہرا رشتہ کبھی قائم نہ ہو پاتا۔ انقلاب اسلامی کا قیام علما کی مسلسل مجاہدت کا ثمر ہے اور آج بھی بقاء اور آرمانوں کی تکمیل کے مرحلے میں حوزہ ہائے علمیہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔

سربراہ سپریم کونسل حوزہ ہائے علمیہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے مقاصد کی تکمیل حدوث کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے، جس کے لیے صبر، مجاہدت اور حوزہ کی بھرپور فعال موجودگی ناگزیر ہے۔ موجودہ حالات میں بصیرت، اتحاد اور جدت کے ساتھ میدان میں اترنا وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دشمنوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنانِ اسلام نے کبھی سازش سے ہاتھ نہیں کھینچا، مگر خدا نے انقلاب کو سخت ترین مشکلات سے بچایا۔ نصرت الٰہی ہمیشہ ساتھ رہی ہے لیکن اس نصرت کو باقی رکھنے کے لیے عوامی اور دینی اداروں کی مسلسل اور بیدار کوشش ضروری ہے۔

آیت اللہ شب زندہ دار نے اپنی گفتگو کے اختتام پر رہبر معظم انقلاب کی "گام دوم انقلاب" بیانیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف منشور نہیں بلکہ رہنما بیانیہ ہے۔ یہ سند حکیمانہ تجربات کا نچوڑ ہے اور مستقبل کے لیے چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حوزہ ہائے علمیہ کو چاہیے کہ اس بیانیہ پر عمل کرتے ہوئے جدید اسلامی ثقافت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha