حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں بحیثیتِ ایک پختہ یقین رکھنے والا مسلمان، جو مسلم اتحاد اور دشمنوں کے مقابلے کے لیے مکمل تیاری کو ضروری سمجھتا ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے کا خیر مقدم اور اس کی حمایت کرتا ہوں۔ یہ بالکل اسی ہدایت کے مطابق ہے جو قرآنِ کریم نے سورۂ انفال میں دی ہے:
“اور (اے ایمان والو!) اپنے مقدور بھر ان کے مقابلے کے لیے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو، تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی خوفزدہ رکھو جنہیں تم نہیں جانتے، لیکن اللہ جانتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ پورا تمہیں دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔” (الانفال: 60)
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ یقیناً ایک اہم اور تاریخی قدم ہے، لیکن حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے چند سوالات پر وضاحت ضروری ہے:
کیا یہ معاہدہ واضح طور پر پاکستان اور سعودی عرب کو اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کا پابند کرتا ہے یا اس کے دوسرے اسٹریٹجک مقاصد ہیں؟ اس معاہدے کے تحت “جارحیت” کی تعریف کیا ہوگی؟ کیا یہ معاہدہ خطے میں امریکی فوجی اڈوں پر مسلم ممالک کے انحصار کو کم کر سکے گا یا پھر یہ صرف مغربی اتحادوں کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا؟
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے چیئرمین انہوں نے کہا کہ دوسرے مسلم ممالک اس معاہدے کو کس نظر سے دیکھیں گے اور اس پر کس طرح کا ردعمل دیں گے؟ کیا یہ معاہدہ ایک وسیع مسلم اتحاد میں تبدیل ہو سکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیکیورٹی کا نقشہ بدل دے اور اسرائیلی و مغربی غلبے کو کمزور کرے۔؟ یہ نہایت اہم سوالات ہیں جو اس شراکت داری کے اصل دائرہ کار اور مستقبل کا تعین کریں گے، ساتھ ہی کسی قسم کی ہندوستانی جارحیت کے خلاف بھی موثر ہو سکے۔؟
انہوں نے کہا کہ جب تک ان سوالات کے جوابات واضح نہیں ہوتے، میں پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت کی بصیرت پر اعتماد کرتا ہوں۔ دونوں ممالک کی عوام اور پورے عالمِ اسلام نے اس اقدام سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ یہ توقعات ہرگز ناکام نہیں ہونی چاہیئں، خاص طور پر فلسطینی عوام کے حق میں اور خطے میں اسرائیلی زیادتیوں کے خلاف۔ میری دعا ہے کہ یہ معاہدہ مسلمانوں میں زیادہ اتحاد اور یکجہتی کا ذریعہ بنے، نہ کہ اختلاف اور تفرقے کا۔









آپ کا تبصرہ