حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس خبرگانِ رہبری میں کردستان کے نمائندے اور اہلسنت عالم مولوی اقبال بہمنی نے طوفان الاقصی کی مناسبت سے کہا کہ یہ آپریشن فلسطینی مجاہدین کی جانب سے ایک تاریخی موڑ تھا جس نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے بھرم کو خاک میں ملا دیا۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے واضح کر دیا کہ اگر ایمان، اتحاد اور عزم ہو تو ایک چھوٹا سا گروہ بھی ایک بڑی طاقت کو ہلا سکتا ہے۔ آئرن ڈوم کی نام نہاد ناقابلِ نفوذ سسٹم کا فیل ہو جانا، اسرائیلی فوجی ٹھکانوں میں نفوذ اور صہیونی سپاہیوں کا گرفتار ہونا اس کارروائی کے نمایاں پہلو تھے۔
مولوی بہمنی نے کہا کہ طوفان الاقصی دراصل ان عرب ممالک کے لیے بھی ایک سخت تنبیہ تھی جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس کارروائی کے بعد کئی ممالک نے صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معطل یا محدود کر دیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی حکومتوں اور ان کی افواج کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت میں عملی قدم اٹھائیں اور دشمن کے خوف سے باز نہ رہیں۔
مولوی بہمنی نے قرآن و سنت کی روشنی میں سوال اٹھایا کہ جب مظلوم عورتیں، بچے اور مرد صہیونی ظلم کا شکار ہیں تو امت اسلامیہ خاموش کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ مظلوموں کی حمایت امت اور اسلامی حکومتوں کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصیٰ نے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو بھی متحیر کر دیا، جنہوں نے فوراً جنگ بندی اور مذاکرات کی بات چھیڑ دی تاکہ حماس کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکا جا سکے۔
مولوی بہمنی نے کہا کہ اس آپریشن نے دنیا کے سامنے صہیونی حکومت کا “خبیث اور وحشیانہ چہرہ” آشکار کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دشمن کی چالوں میں نہ آئیں اور اپنی پالیسیوں میں ہوشیاری سے کام لیں۔
آخر میں انہوں نے زور دیا کہ طوفان الاقصی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ “مزاحمت تبدیلی کا پیغام ہے” اور حماس نے یہ پیغام تمام اسلامی ممالک تک پہنچا دیا ہے۔
انہوں نے امتِ مسلمہ اور اسلامی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ اس موقع کو غنیمت جانیں اور فلسطین کے مظلوم عوام کی بھرپور حمایت کے لیے متحد ہو جائیں۔









آپ کا تبصرہ