جمعرات 9 اکتوبر 2025 - 19:55
طوفان الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری کی علامت ہے، مقررین

حوزہ/ مدرسہ علمیہ ثقلین قم کے شعبۂ ثقافت کی جانب سے طوفان الاقصیٰ کو دو سال مکمل ہو جانے پر دو روزہ علمی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جسمیں مقررین نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری اور اسلامی مزاحمت کی علامت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ علمیہ ثقلین قم شعبۂ ثقافت کی جانب سے ۷ اکتوبر طوفان الاقصیٰ کو دو سال مکمل ہوجانے پر "طوفان الاقصیٰ، اسباب و علل اور نتائج" کے عنوان سے دو روزہ علمی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس نشست میں مدرسہ کے ممتاز طلاب و مقررین نے فلسطینی تحریک طوفان الاقصیٰ جیسے عظیم کارنامے کے اسباب و علل اور عالمی پیمانے پر اس کے نتائج پر روشنی ڈالی۔

نشست کا مقصد فلسطین میں جاری مزاحمتی تحریک “طوفان الاقصیٰ” کے فکری، سیاسی اور دینی پہلوؤں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنا تھا۔

طوفان الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری کی علامت ہے، مقررین

۷ اکتوبر (پہلا دن): عالمی پیمانے پر طوفان الاقصیٰ کا اثر

نشست کے پہلے دن مدرسہ کے ممتاز طالب علم مولانا سید علی عباس زیدی مقرر تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں طوفان الاقصیٰ کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: یہ واقعہ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری کی علامت ہے۔

مولانا زیدی نے مزید کہا کہ طوفان الاقصیٰ کا ایک اہم اثر بین الاقوامی سیاست میں نئے توازن کا پیدا ہونا ہے، اور فلسطینی عوام کی مزاحمت نے عالمی طاقتوں کے مفادات کو چیلنج کیا ہے۔

انہوں نے مغربی میڈیا کے جانبدار رویّے پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا کو اپنی میڈیا شناخت خود قائم کرنی ہوگی تاکہ اسلامی دنیا سے متعلق حقائق دنیا کے سامنے درست انداز میں پیش کیے جا سکیں۔

انہوں نے درج ذیل چند اہم نکات پر بھی روشنی ڈالی:

1. پہلی بار گزشتہ ۷۰ برسوں میں فلسطینی مزاحمت نے ایسا منظم حملہ کیا۔

2. اسرائیل کے اُس دعوے کی حقیقت ظاہر ہو گئی جو کہہ رہا تھا کہ اسرائیل شکست ناپذیر ہے۔

3. اسرائیلی حکومت نے غزہ کے خلاف جو مقاصد طے کیے تھے وہ آج دو سال گزرنے کے باوجود پورے نہیں ہوئے۔

نیتن یاہو نے کہا تھا کہ “ہم دو ہفتوں میں تمام قیدیوں کو آزاد کرالیں گے اور حماس کو نیست و نابود کردیں گے”، لیکن آج تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔

4. پتھروں سے حملہ کرنے والے فلسطینی کس طرح اس منزل پر پہنچے کہ میزائل اور ڈرون کے ذریعے طوفان الاقصیٰ نامی حملہ کیا — یہ ایمان اور تدبیر کی عکاسی کرتا ہے۔

5. آج مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم آزاد انسان بھی فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

6. مزاحمتی مورچوں — فلسطین، لبنان، یمن اور ایران — کے درمیان مزید یکجہتی پیدا ہوئی ہے۔

7. اسرائیل کا صلح پسند جعلی چہرہ دنیا بھر میں واضح ہو چکا ہے۔

8. عرب ممالک کے حکمرانوں کا حقیقی چہرہ بھی دنیا پر عیاں ہو گیا ہے۔

9. عوامی سطح پر سنی و شیعہ میں اتحاد و یکجہتی پیدا ہوئی ہے۔

10. سیاسی لحاظ سے بھی اسرائیل انتہائی تنہائی کا شکار ہے۔ اس کی ایک مثال اسی سال اقوام متحدہ میں نیتن یاہو کی تقریر کے دوران متعدد ممالک کے سفیروں کا احتجاجاً ہال سے نکل جانا ہے۔

مولانا زیدی نے کہا کہ یہ نکات فلسطینی تحریک کی کامیابی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، مگر جیت ہمیشہ مقصد کی ہوتی ہے، جس طرح کربلا کے میدان میں امام حسینؑ نے قربانی دے کر رسول اکرم ﷺ کے مقصد کو زندہ رکھا۔

طوفان الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری کی علامت ہے، مقررین

۸ اکتوبر (دوسرا دن): رہبرِ معظم آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں طوفان الاقصیٰ کی تاثیر

نشست کے دوسرے دن مولانا تسکین رضا جمانی نے خطاب کیا۔ انہوں نے مقامِ معظم رہبری کے بیانات اور نقطۂ نظر کی روشنی میں طوفان الاقصیٰ کی فکری اور ایمانی جہتوں کا جائزہ لیا۔

انہوں نے کہا: رہبرِ انقلاب اسلامی کے نزدیک طوفان الاقصیٰ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی اور ایمانی موڑ ہے جو امتِ مسلمہ کے استقلال اور ایمان کی علامت ہے۔

مولانا تسکین رضا نے رہبرِ انقلاب کے کلمات نقل کرتے ہوئے کہا: یہ واقعہ ظالم و مظلوم کے درمیان کھینچی جانے والی وہ لکیر ہے جو مستقبل کے عالمی نظام کی فکری بنیاد طے کرے گی۔

انہوں نے درج ذیل نکات کو اہم قرار دیا:

1. طوفان الاقصیٰ حملے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اسرائیلی حکومت غزہ کی نابودی کے لیے مکمل تیاری کر چکی تھی، صرف عمل درآمد باقی تھا۔

2. اس حملے کے ذریعے اسرائیل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

3. طوفان الاقصیٰ خود اسرائیلی حکومت کے ظلم و ستم کا نتیجہ ہے۔

4. فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کو ۷۰ سال پیچھے دھکیل دیا۔

5. اسرائیل کی ہیبت کا شیشہ چکنا چور ہو گیا۔

6. اسرائیل جو خود کو سب سے محفوظ ملک سمجھتا تھا، اس کا یہ تاثر ختم ہو گیا۔

7. اسرائیل کی مظلوم نمائی اب دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔

8. مزاحمتی محاذ میں مزید اتحاد و استحکام پیدا ہوا۔

مولانا جمانی نے مزید کہا کہ مقامِ معظم رہبری ہمیشہ امتِ مسلمہ کو امید اور بیداری کا پیغام دیتے ہیں، خاص طور پر عرب حکمرانوں کو غفلت سے جگانے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے امام خمینیؒ کا وہ قول بھی نقل کیا: اگر ہر مسلمان ایک بالٹی پانی اسرائیل پر ڈالے تو اسرائیل بہہ جائے۔

طوفان الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ استعمار کے خلاف فکری بیداری کی علامت ہے، مقررین

نشست کے اختتام پر شرکاء نے اس علمی نشست کو نہایت مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فکری اجتماعات امت کے فکری اتحاد کو مضبوط بناتے ہیں اور مزاحمت کے مفہوم کو علمی و نظریاتی سطح پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

آخر میں مدرسہ علمیہ ثقلین قم شعبۂ ثقافت کے سرپرست مولانا اقبال حیدر حیدری نے مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مستقبل میں بھی اسی نوعیت کی نشستیں اسلامی مزاحمت، عالمی سیاست اور امت کی فکری بیداری جیسے موضوعات پر جاری رہیں گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha