۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
نواب

حوزہ / امور حج و زیارت میں رہبر معظم کے نمایندے حجت الاسلام و المسلمین سید عبدالفتاح نواب نے کہا ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کا خون صرف اسرائیلی حکومت ہی نہیں بلکہ وہ ممالک بھی بہا رہے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امور حج و زیارت میں رہبر معظم کے نمایندے حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبدالفتاح نواب نے مجمع جهانی تقریب مذاہب اسلامی کے زیر اہتمام منعقد دوسری "وبینار وحدت" میں حالیہ "طوفان الاقصیٰ" آپریشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا : اس آپریشن نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور بچوں کا قاتل اسرائیل سب سے زیادہ حیرت زدہ ہوا۔

انہوں نے آپریشن کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا : جب اسرائیل نے مغربی حمایت اور مشرقی رضامندی کے ساتھ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں بسایا، تو اس وقت فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک نہایت کمزور تھے اور ان کے حکمران مغربی طاقتوں کے زیر اثر تھے، جس کے باعث فلسطینیوں کے بنیادی حقوق نظر انداز کیے گئے۔

حجۃ الاسلام سید نواب نے مزید کہا : اس کے بعد فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضہ شروع ہوا، ان کے زیتون کے باغات تباہ کر دیے گئے اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا، بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا اور اگر یہی لوگ مغرب میں ہوتے تو مغربی حکومتیں حقوقِ انسانی کے نام پر دنیا کے سامنے آنسو بہاتیں۔

انہوں نے مزید کہا : اسرائیل نہ تو کسی بین الاقوامی معاہدے کی پابندی کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی عالمی اصول کی پرواہ ہے، جبکہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور یورپ کی بھرپور حمایت اسے حاصل ہے، اسی طرح یہودی مذہب کی تعلیمات کی بھی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں "طوفان الاقصیٰ" جیسی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

حجت الاسلام نواب نے کہا : انہیں یقین نہیں تھا کہ غزہ کے جوان ایک سال تک ڈٹ کر اسرائیل کا مقابلہ کریں گے اور اس کی نیندیں حرام کر دیں گے، امید ہے کہ یہ جوان کامیاب ہوں گے۔

انہوں نے آخر میں کہا : دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کریں، فلسطینی عوام کا خون اسرائیلی حکومت سے پہلے ان حکومتوں کے ہاتھوں سے بہا ہے جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، اگر فلسطینی، اسرائیلی بستیوں کے باقی رہنے پر راضی بھی ہو جائیں تو بھی فلسطین کا اقتدار ان فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .