حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ خراسان کے استاد حجت الاسلام والمسلمین درایتی نے کہا کہ علامہ میرزای نائینیؒ نے علمِ اصول میں ایک فکری مکتب کی بنیاد رکھ کر فقہ نظریہ اور فقہ عملی کے درمیان گہرا ربط قائم کیا۔ وہ ایسے مجتہد اور نظریہ پرداز تھے جنہوں نے اصولِ فقہ کے علمی جمود کو توڑ کر اس علم کو ایک منظم فکری نظام میں تبدیل کیا۔
انہوں نے مشہد مقدس میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس مرحوم میرزا نائینیؒ کے اختتامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نائینیؒ نہ صرف فقہ و اصول کے ممتاز ماہر تھے بلکہ ان کی فکر نے علمِ اصول کو ایک نئی جہت دی۔
حجت الاسلام والمسلمین درایتی نے کہا کہ آیت اللہ العظمی نائینیؒ نے علم اصول میں ایسی بدیع آرا اور گہرے نظریات پیش کیے جنہوں نے اس علم کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد دی۔ انہوں نے حسن و قبح، طلب و ارادہ اور حقیقتِ حکم جیسے بنیادی مباحث میں نئے فکری سانچے متعارف کرائے۔
ان کے بقول، آیت اللہ نائینیؒ کے نزدیک “حکم” اگرچہ ایک اعتباری امر ہے، لیکن یہ حقیقتِ عینی سے جدا نہیں۔ انہوں نے “اعتبار” اور “واقع” کے باہمی تعلق کو اس انداز میں بیان کیا کہ شرعی احکام اور خارجی موضوعات کے درمیان ایک عقلی و منطقی تطابق پیدا ہوا، جس نے بعد کے فقہی مکاتب کو گہرا اثر دیا۔
استاد حوزہ علمیہ خراسان نے کہا کہ نائینیؒ کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی قواعد اصولی کو عملی بنانا تھی۔ انہوں نے علم اصول کو محض نظری مباحث تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان اصولوں کو فقہی استنباط کے عمل میں داخل کیا۔
ان کے مطابق، نائینیؒ نے علم اصول اور فقہ کے درمیان موجود خلا کو پُر کیا اور اصولی قواعد کو استنباطی دلائل کے طور پر پیش کیا، تاکہ فقہا نظری مباحث سے براہِ راست فقہی نتائج تک پہنچ سکیں۔
حجت الاسلام والمسلمین درایتی نے کہا کہ نائینیؒ نے اصولی مباحث کو عملی معیاروں میں ڈھالنے کی جدوجہد کی، جس کی ایک روشن مثال ان کی "استصحابِ عدمِ ازلی" پر تحقیق ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ نائینیؒ نے اس مسئلے کو روایتی ابهام سے نکال کر ایک معیاری اصول کے طور پر پیش کیا، جو فقہی استنباط میں قابلِ اطلاق ہو۔ اگرچہ آیت اللہ خوییؒ نے بعد میں اس معیار پر بحث کی، لیکن نائینیؒ کا یہ فکری اقدام علم اصول میں ایک بنیادی موڑ ثابت ہوا۔









آپ کا تبصرہ