۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
اشتیہ

حوزہ/امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ مشرقِ وسطی کے امن منصوبے کو مسترد کر کے فلسطینی رہنماؤں نے اپنے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انھوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے کسی علاقے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو فلسطین اور اسرائیل کے مابین اب تک ہوئے تمام معاہدے منسوخ کر دیے جائیں گے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے مشرقِ وسطی امن منصوبے میں ایک محدود فلسطینی ریاست اور مقبوضہ مغربی کنارے پر آباد بستیوں پر اسرائیلی خودمختاری تسلیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ فلسطینی وزیر اعظم کا کہنا ہے ’اگر ہم اس ڈیل (مجوزہ امن معاہدے) کو تسلیم کر لیتے تو ہمیں اچھا قرار دیا جاتا۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ کیوںکہ ہم اپنی قومی سلامتی کے مسئلے پر ڈٹے ہوئے ہیں اس لیے ہم اب مزید اچھے نہیں رہے۔ اگر اچھا اور برا قرار دینے کا یہی پیمانہ ہے تو ہم برا بننے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ہم اپنی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔‘وزیر اعظم محمد اشتیہ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے کہ فلسطین کو تسلط سے آزاد کروایا جائے اور یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہو اور اس کے لیے وہ ہمیں جو بھی کہتے ہیں انھیں کہنے دیں۔ان سے پوچھا گیا کہ فلسطین کی جانب سے امریکی انتظامیہ کا دسمبر 2017 سے جاری بائیکاٹ کا نقصان فلسطین کو ہوا ہے کیونکہ اس حوالے سے ہونے والی بات چیت کا وہ حصہ نہ بن سکے؟فلسطینی وزیر اعظم کا کہنا تھا ’ہم نے امریکی انتظامیہ کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ یہ امریکی انتظامیہ تھی جس نے ہمیں بات چیت کے عمل سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘فلسطینی وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ آپ (فلسطین) کو امید تھی کہ عرب رہنما اور عرب ممالک اس معاملے پر فلسطین کا ساتھ دیں گے اور اس منصوبے کو مسترد کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا؟ ’ہم چند عرب ممالک کی سیاسی مجبوریوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب وقت ایک واضح پوزیشن اختیار کرنے کا ہے۔ جو لوگ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں ہیں وہ مستقبل میں اپنے آپ کو دوسری طرف (امریکہ اور اسرائیل) پر کھڑا پائیں گے اور یہ عرب ممالک کے لیے غیر معمولی ہو گا۔‘ ’ہمیں چند عرب ممالک سے فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ چند عرب رہنماؤں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے سفیروں کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس امن منصوبہ کی حمایت کرتے ہیں۔ شاید عرب ممالک کے چند سفیر وائٹ ہاؤس خیر سگالی دورے کے تحت گئے ہوں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ عرب ممالک فلسطینیوں کا سودا کریں گے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس منصوبے کی مخالفت کر کے فلسطینی انتظامیہ وجود قائم رکھ پائے گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس (منصوبے) سے پہلے بھی اپنا وجود قائم رکھتے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ (منصوبہ) ہمارے فلسطینی ریاست کے خواب کو پورا کرنے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔‘’فلسطینی صدر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو خط بھیج چکے ہیں کہ اگر انھوں نے مقبوضہ مغربی کنارے یا فلسطینی ریاست کے کسی بھی علاقے کو اپنے ساتھ ملانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کیا تو ہمارے درمیان موجود تمام سیاسی، سکیورٹی، معاشی معاہدے منسوخ کر دیے جائیں گے۔‘وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا ’مجھے فلسطینی ریاست کا خواب پورا ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات کا یقین یہ ہے کہ آپ (اورلا گیورن) اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ فلسطینی مسئلے کا حل ہو گا شاید اب یا بعد میں۔۔۔ مگر آئندہ نسل ایسی فلسطینی ریاست لازماً دیکھے گی۔‘جن علاقوں کو صدر ٹرمپ نے اسرائیلی علاقہ تسلیم کیا ہے ان میں امریکہ اسرائیل کی مکمل خودمختاری تسلیم کرے گا۔ اس پلان میں صدر ٹرمپ نے ایک مجوزہ نقشہ بھی پیش کیا ہے اور اس کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس میں اسرائیلی علاقائی کی نشاندہی کی گئی ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے پلان سے فلسطینی علاقہ دوگنا ہو جائے گا اور مشرقی یروشلم دارالحکومت بن جائے گا جہاں امریکہ اپنا سفارتخانہ کھولے گا۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس پلان کے تحت انھیں تاریخی طور پر فلسطینی علاقوں کا صرف 15 فیصد دیا گیا ہے۔صدر ٹرمپ کے پلان کے مطابق یروشلم اسرائیل کا غیر مشروط اور غیر منقسم دارالحکومت ہو گا۔ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی اس شہر کے دعوے دار ہیں اور یہاں بہت سارے مقدس مقامات ہیں۔ فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ مشرقی یروشلم جس پر اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیا تھا، یہی ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو گا۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس پلان کے تحت فلسطینیوں کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں تاہم اس حوالے سے انھوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دیں۔صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس پلان کے تحت کسی فلسطینی یا اسرائیلی کو اپنے گھروں سے بیدخل نہیں کیا جائے گا۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی مانی جانے والی اسرائیل کی تعمیر کردہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا۔اسرائیل اردن کے بادشاہ کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یروشلم کے مقدس ترین مقام جسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور مسلمان الحرم الشریف، ان مقامات کی انتظامیہ کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ اس وقت اردن وہ مذہبی ٹرسٹ چلاتا ہے جو ان مقامات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ جن علاقوں کو صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کے مختص کیا ہے وہ آئندہ چار سال آمد و رفت کے لیے کھلے رہیں گے اور وہاں کوئی تعمیراتی کام نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت کے دوران فلسطینیوں کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اس پلان کا جائزہ لے لیں، اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں اور ’خود مختار ریاست کے لیے تعین شدہ پیمانے پر پورا اتر آئیں۔‘ منصوبے کے خدوخال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کو حتمی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا۔ بعض مبصرین اسے ’ڈیل آف دا سینچری‘ یعنی اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک کا حل تلاش کرنا ہے۔ اسرائیل نے ان تجاویز پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم فلسطین انھیں متعصب قرار دے کر مسترد کیا ہے۔فلسطین میں آج اس مجوزہ ڈیل کے خلاف ’ڈے آف ریج‘ یعنی غصے کا دن منایا جائے گا۔ اس دن کی مناسبت سے آج فلسطینی عوام سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرے گی۔فلسطین نے صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کو ایک ’سازش‘ قرار دیا ہے۔اس منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے فلسطین کے صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ ’یروشلم برائے فروخت نہیں ہے۔ ہمارے حقوق برائے فروخت نہیں ہیں اور ان پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔‘اس منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد فلسطینی شہریوں کی ایک بڑی تعداد گذشتہ بدھ کے روز سڑکوں پر نکلی تھی اور اس روز کو ’غصے کے دن‘ کے طور پر منایا گیا تھا۔اس دن کو منانے کا اعلان چند فلسطینی سیاسی گروپس نے دیا تھا۔مظاہرین کی اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران متعدد فلسطینی زخمی بھی ہوئے تھے۔ فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق مظاہریں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں تین افراد زخمی ہوئے تھے۔یہ جھڑپیں مغربی کنارے کے شمالی علاقے رملہ میں ہوئی تھیں جن میں فائرنگ بھی کی گئی۔ زخمی ہونے والے مظاہرین کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔یروشلم کے مضافات میں واقع ابو دس نامی گاؤں میں مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں تھیں جس سے بہت سے مظاہرین زخمی ہو گئے تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .