۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
IMG-20200421-WA0002.jpg

حوزہ/اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ کہ اس میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی گئی اور آیات و روایات کی تمام عربی عبارتوں پر اعراب لگائے گئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |کتاب: ساحل رحمت  (ماہ رمضان کی روزانہ دعاوں کی شرح )

مولف: حجۃ الاسلام مولانا سید عباس باقری

موضوع: اسلامیات، ادعیہ، شرح و تفسیر دعا

زبان: اردو

تعداد صفحات: ۴۷۲

ناشر اور سال نشر: ولایت پبلیکیشنز ،دہلی،

تبصرہ از: محمد عباس مسعود حیدرآبادی

تبلیغ کیلئے ایک لازمی امر یہ ہے کہ مبلغین کیلئے مختلف موضوعات پرعلمی آثار اور تالیفات کی معرفی کروائی جائے تاکہ وہ تبلیغی میدان میں جس موضوع  پر تحقیق کرنا چاہیں کرسکیں ماہ مبارک رمضان قریب ہے چنانچہ اسی مناسبت سے میں نے زیر نظر  کتاب تبصرہ کے لئے چنا ہے ۔
ماہ مبارک رمضان رحمتوں، برکتوں اور ضیافت الہی کا مہینہ ہے یہ مہینہ توبہ و استغفار اور اللہ سے راز و نیاز اور دعا کا مہینہ ہے۔
اس مہینہ کے اہم ترین موضوعات میں ایک موضوع جو کافی اہمیت کا حامل ہے وہ ہے اس مہینہ میں پڑھی جانے والی تیس دن کی دعائیں، اگر چہ یہ دعائیں بظاہر ماثورہ نہیں ہیں لیکن دعاوں کے بلند مفاہیم سے ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ائمہ علیہم السلام ہی کا کلام ہو چنانچہ اس دعا کی زبان و بیان اور اعلی مفاہیم کے پیش نظر علماء اعلام نے اپنی معتبر کتابوں میں اس دعا کو نقل کیا اور صدیوں سے صاحبان قلم ان دعاوں کا ترجمہ اور شرح لکھتے چلیں آرہے ہیں۔ عربی اور فارسی میں ان دعاوں کی شروحات پر مستقل اور متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ لیکن اردو زبان کا دامن اس سے خالی تھا۔
مگر بھلا ہو  جنوب ہند کی جانی مانی شخصیت ،عالم باعمل،شاعر بے بدل ،ادیب و خطیب ،فاضل قم ،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید عباس باقری صاحب قبلہ و کعبہ کا کہ آپ نے یہ بیڑا اٹھایا اور "ساحل رحمت " نامی کتاب کی  تالیف  کرکے تشنہ گان راز و نیاز کو ساحل رحمت سے سیراب کردیا ۔
ہوا یوں کہ آپ نے اپنے وطن نگرم میں ایک سال جب ماہ مبارک رمضان میں ان دعاوں کو اپنے وعظ اور درس کا عنوان بنایا تو گویا مومنین، پہلی بار ان دعاوں سے آشنا ہوئے اس سے پہلے وہ دعاوں کی قرآئت تو کرتے تھے مگر ان دعاوں کے معنی اور بلند مفاہیم سے بیگانہ تھے۔ جب مولانا نے ان دعاوں کی تشرح اور تفسیر بیان کی تو مومنین نے بہت پسند کیا اور مولانا سے تقاضہ کیا عامۃ الناس کے فائدہ کیلئے آپ ان دعاوں کی شرح لکھ دیجیے ۔
مومنین نگرم کی تحریک پر مولانا نے اس موضوع پر وسیع مطالعہ کا آغاز کیا او بسم اللہ کہہ کر ان دعاوں کی شرح لکھنے کیلئے کمر کس لی ۔اس کتاب کی تالیف کا جو مقصد مولانا کے پیش نظر تھا وہ یہ تھا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان دعاوں کے بلند مفاہیم سے آشنا ہوں مبلغین اور خطباء اپنے دروس اور مجالس میں ان دعاوں کی شرح سے فیض اٹھائیں ۔
مصنف نے سب سے پہلے ہر دعا کا نہایت سلیس اور رواں ترجمہ پیش کیا  پھر اس کے بعد آپ نے ہر دعا کے ذیل میں اہم مطالب کے عنوان سے دعا کے  فقرات کے مطابق مختلف عناوین قائم کئے اور ہر فقرے کے ذیل میں سب پہلے مشکل لغات کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھے پھر ہر فقرے کی مناسبت سے جو عنوان قائم کیا تھا اس عنوان پر آیات و روایات کی روشنی میں اس کی شرح و تفسیر لکھی۔ الحمدللہ دعا کا ہر فقرہ جداگانہ پیغام لئے ہوئے ہے مبلغین اپنے سلیقہ کے اعتبار سے ہر ایک دعا سے کئی عنوان سے فیض اٹھا سکتے ہیں ۔
اس کتاب کے مطالب زیادہ تر اخلاقی موضوعات پر ہیں ۔ جن پر قرآن و حدیث سے استناد کیا گیا۔ اور چند ایک مقامات پر مناسبت سے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ کہ اس میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی گئی اور آیات و روایات کی تمام عربی عبارتوں پر اعراب لگائے گئے۔ اور آخر کتاب میں موجود منابع و مدارک کی جو طویل فہرست ذکر کی گئ اس سے مولف کی محنت اور تلاش و تحقیق میں اٹھائی گئی مشقت کا اندازہ ہوتا ہے ۔منابع کی فہرست میں آپ کو لغات و تفسیر و حدیث اور اخلاق کی  معتبر اور مستند کتابوں کا ایک طویل سلسلہ دکھائی دے گا ۔
اس کتاب کے چند اہم عناوین کچھ اس طرح ہیں:ماہ رمضان کی فضیلت، روزہ، دنیا و آخرت میں نماز کے آثار و فوائد، محاسبہ اور تہذیب نفس، دین اور دینی دستورات کے آگے تسلیم محض ہونا،اللہ کی رضا کے حصول اور قربت الہی کے راستے، ثواب اعمال کی نابودی کے اسباب، دعا اور اس کے آداب وآثار، تلاوت قرآن کا ثواب، اہلبیت کی امامت و ولایت، اور ان کی محبت و اطاعت کا لزوم، دوستی اور دشمنی کا معیار، فضائل قرآن کریم، ماہ رمضان میں اللہ کی رحمت و مغفرت، ماں باپ کو خوش  رکھنا اور اس جیسے دوسرے بے شمار اخلاقی مسائل و موضوعات اس کتاب میں ذکر  کئے گئے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں  ۔

تبصرہ از: محمد عباس مسعود حیدرآبادی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .