۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
طاہر محمود

حوزہ/قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور لاء کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود نے کہا کہ' یوں تو یہ نظیر بھی عدالت عظمیٰ کے علم میں ہوگی مگر اسے اس مذموم فتنہ انگیزی کے لئے عدالت کا سہارا لئے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،طاہر محمود نے کلام پاک سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ' فرقہ وارانہ فتنہ انگیزی کی یہ بدترین کوشش بجائے خود تعزیرات ہند کی دفعات 53A 1 اور 295A کے تحت سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔

آج یہاں جاری ایک بیان میں انہوں نے بتایا کہ' ان میں سے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد پر بدامنی پھیلانے کی کوشش کو جرم قرار دیتی ہے اور دوسری صاف طور پر کہتی ہے کہ 'جو کوئی شخص ہندوستان کے شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات بھڑکانے کی نیت سے زبانی یا تحریری طور پر اس کے مذہب کی توہین کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی'۔

انہوں کہا کہ' عدالت عظمیٰ کو ان دفعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مدّعی کے خلاف تعزیری کاروائی کی متعلقہ حکام کو ہدایت دینی چاہئیے۔ پروفیسر نے مزید بتایا کہ' 1984 میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک اسی قسم کا کیس دائر کیا گیا تھا جسے عدالت نے خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ 'عدالت کا اس معاملہ کا نوٹس لینا ملکی آئین کے قطعاً خلاف ہوگا اور مدعیان نے عدالت میں یہ معاملہ اٹھا کر قانوناً خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے'۔

پروفیسر محمود نے کہا کہ' یوں تو یہ نظیر بھی عدالت عظمیٰ کے علم میں ہوگی مگر اسے اس مذموم فتنہ انگیزی کے لئے عدالت کا سہارا لئے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہئیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .