حوزہ نیوز ایجنسیl
حضرت امام خمینیؒ اسلامی تحریک کی ابتداء سے بالخصوص اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنے بیانات اورتحریروں میں ہمیشہ اسلام اور اسلامی انقلاب کے نظریہ کے مطابق مطلوبہ عالمی نظام کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ان کے مطالب اورتحریروں سے استفادہ کرکے ہم اس نظام کے مندرجہ ذیل کلیات پر روشنی ڈالیں گے :
۱۔مارکسسٹوں کے تاریخی جبرکے اعتقاد کے مطابق مزدور طبقہ کی ناقابل اجتناب حاکمیت کے برعکس امام خمینیؒ اعتقاد رکھتے تھے کہ صرف مستضعف ملتوں کی اپنے حقوق کے بارے میں بیداری اور آگاہی پاکر مستکبرین کے خلاف قیام کرنے سے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔"مستضعفین کو انقلاب برپاکرناچاہئے"۔"تمام ممالک کے مستضعفین کوزبردستی اپنا حق حاصل کرناچاہئے"۔"انھیں منتظر نہیں رہناچاہئے کہ وہ(مستکبر ین)ان کو اپناحق دیں گے۔مستکبرین کسی کو اپنا حق نہیں دیتے"۔[1]
۲۔مستضعفین کی دنیاپراپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے مستضعفین کی آگاہی اور عملی انقلاب ضروری اور ناقابل اجتناب ہونے کے علاوہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق بھی ان کی کامیابی یقینی اور قطعی ہے: ‘‘اے دنیاکی مستضعف ملتو!۔اٹھ کھڑے ہو اوراپناحق چھین لو بڑی طاقتوں کے غل غپاڑے سے نہ ڈرو،خداوند متعال آپ کے ساتھ ہے اورزمین آپ کی وارث ہے اورخداوند متعال کاوعدہ بدلنے والا نہیں ہے ۔[2]
۳۔عا لمی ا من وصلح کا تحفظ ا ور بقاکا تعلق بڑی طاقتوں اور مغربی دانشوروں اور سیاست دانوں کے پیش کردہ دوسرے نظاموں کے توازن سے نہیں ہے بلکہ یہ صرف استکباری طاقتوں کی نابودی اورشکست سے ممکن ہے ۔[3]
۴۔ مستضعفین کا تعلق صرف مسلمانوں اور تیسری دنیا کی ملتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے اطراف واکناف میں استکبار کے تسلط میں پھنسے عام لوگ،یہاں تک کہ مشرق ومغرب کی استکباری حکومتوں کے سائے میں موجود لوگ بھی مستضعفین ہیں ۔اس لئے جغرافیائی،ثقافتی اور حکومت وملت کی تقسیم بندیوں میں سے کوئی بھی عامل مستضعفین اورمستکبرین کے درمیان سرحدبندی کی دلیل نہیں ہوسکتی ہے ۔لہذاتمدنون اور ثقافتوں کے ٹکراؤ ،حتی عالمی قطب بندیوں کا نظریہ ،مستکبرین کے تسلط کو جاری رکھنے ،غنائم کی تقسیم بندی اور مختلف ملتوں اور معاشروں کا استحصال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔[4]
۵۔سیکو لرزم اور اومانسٹزم کی بنیادوں پر مشتمل گزشتہ نظاموں ……جوایک اچھی زندگی کے لئے حصول لذت اورپُر خرچی مصرف گرائی کی ترویج کرتے تھے ……کے برعکس یہ نظام دین اورخدا کی حاکمیت کی بنیاد پر استوار ہے اور تقویٰ کی پابندی ،اخلاقی نظم وضبط اور معنوی والہٰی اعتقادات کی پابندی کو باسعادت زندگی سمجھتا ہے اور بوالہو سی اورذخیرہ اندوزی کی ثقافت (جو مستکبرین کا شیوہ ہے) ……کوسختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے ۔وراثت مستضعفین کی ہے ۔مستکبرین غاصب ہیں ۔مستکبرین کومیدان سے نکلنا چاہئے ۔دونوں بڑی طاقتوں نے مستضعف ملتوں کو بر بادکرنے کاعہد کیا ہے اورہمیں دنیا کے مستضعفین کی حمایت کرنی چاہئے ۔اسلام مسلمان اورغیر مسلم ممالک کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہے اور دنیا کے تمام مستضعفین کاحامی ہے ۔
۶۔عام طورپر مسلمان اور خاص طور پر ایران کی ملت ،جواستکبار پرغلبہ پانے میں کامیاب ہوئی ہے ،مکتب اسلام سے مستفید ہونے کی برکت سے اس عظیم عالمی تحریک کی ہدایت ورہبری اپنے ذمہ لئے ہوئی ہے ۔دوسرے الفاظ میں اسلامی انقلاب کی وسعت اور اس کا ملک سے باہر مقبول ہونا سامراجی طاقتوں سے عالمی سطح پر مقابلہ اورمستضعفین کی حمایت کرنے کی کوشش کے معنی میں ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایک چند قطبی نظام کے گزر جانے کے بعد عالمی معاشرہ ایک نئے دوقطبی نظام میں داخل ہوگا جس کے ایک طرف دنیاکی سامراجی طاقتیں تمام فوجی اور اقتصادی وسائل کے ساتھ منظم اور متحد ہوں گی اور دوسری طرف دنیاکی مستضعف ملتیں بالخصوص تیسری دنیا کی مستضعف ملتیں بیدار اورآگاہ مسلمانوں کی رہبری میں انقلاب برپا کرکے سامراجی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکریں گی ۔
اگرچہ سامراجی طاقتیں قابل توجہ فوجی اور اقتصادی لحاظ سے مسلح تھیں اور ہوں گی ،لیکن وہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر بیداراورآگاہ لوگوں کے ساتھ ایک شدید جنگ سے دوچارہوں گی اور مناسب حالات ،وسائل اوراسلحہ کے باوجود اپنے زمامداروں کو بچا نہیں سکیں گی ۔
موجودہ تشکیل پار ہے چندقطبی نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران سر گرم رول اداکرسکتا ہے اور اسے یہ کردار انجام دیناچاہئے ۔مستقبل کی بلاک بندی اور امریکہ کے سامراجی عزائم کے مقابلہ میں یورپ کے تشکیل پار ہے بلاک کے علاوہ مغربی ایشا میں ،روس،چین ،ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ ایران پر مشتمل ایک اور طاقتوربلاک تشکیل پارہا ہے ۔یہ چار بڑی طاقتیں عظیم قدرتی منابع رکھنے کے پیش نظر اور بوالہوسی نہ رکھنے کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اسباب فراہم کرسکتی ہیں۔اس بلاک بندی میں اسلامی جمہوریہ ایران ،سر گرم اور طاقتور آئیڈیالوجی ،سوق الجیشی حالت،اور عظیم منابع وذخائر کا مالک ہونے کے پیش نظر،ملتوں کی ضروری آگاہی حاصل کرکے اپنے مقدرکا خودفیصلہ کرنے کے لئے انقلاب برپا کرنے تک،اہم رول اداکرسکتاہے ۔
امریکہ کی طرف سے مجموعی طورپر کم ازکم تجارتی اوراقتصادی لحاظ سے دباؤڈالنے کے باوجود یورپ کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات بڑھ رہے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ تین اہم بحرانو ں نے یورپ کے ساتھ ایران کے تعلقات میں خلل پیداکی ہے ۔ان میں سب سے اہم قضیہ "آیات شیطانی" نامی کتاب کے مصنف سلمان رشدی کے خلاف حضرت امام خمینیؒ کا فتویٰ تھا ۔
اس فتویٰ نے مغربی دنیا میں ایسی ہلچل مچادی کہ یہ مسئلہ نہ صرف یورپی ممالک کے تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا سبب بنا بلکہ مغربی دنیا کے ایجاد کردہ بین الاقوامی نظام کو ایک چیلینج کا سامنا کرناپڑا۔امام کے فتویٰ نے ثابت کیا کہ ایک اسلامی رہبرکی سادہ تحریر مغربی دنیا کی سیکیورٹی کی مستحکم دیواروں کو عبور کرسکتی ہے اور مغرب کو اپنے ایک شہری کی حفاظت کے لئے سالہاسال تک حفاظتی فوج کی ایک بڑی تعداد کو تیار رہنے کا حکم دینے پر مجبور کرسکتی ہے ۔یہ لوگ اس وقت ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے اور فتویٰ صادر کرنے والے کی رحلت کے باوجود سلمان رشدی کے لیے ضروری تحفظ مہیا نہ کرسکے ہیں ۔
عالمی اور بین الاقوامی مواز نے تغیروتبدل کی حالت میں ہیں ۔یک قطبی نظام کے زوال اور تمدنوں سے ٹکراؤ کے نظریہ موثر ثابت نہ ہونے کے بعد امریکی ‘‘گلوبل’’اور‘‘چھوٹے عالمی گاؤں ’’کا نظریہ پیش کر رہا ہے کہ اس عالمی چھوٹے گاؤں میں امریکہ کی چودھراہٹ میں دوسرے تمام سیاسی،اقتصادی اورثقافتی نظام امریکی سیاسی،اقتصادی اور ثقا فتی نظام کے تحت الشعاع قرار پاکر نابود ہونے چاہئے اور حقیقت میں امریکہ کا تسلط ہمیشہ کے لئے دنیا میں قائم ہوناچاہئے ۔فوکویاما کے بقول:‘‘ہم تاریخ کے اختتام تک پہنچ جائیں گے۔’’ اگر چہ ‘‘گلوبل’’نظریہ کے لئے زبردست پروپیگنڈاکیا جارہاہے اورتیسری دنیا کی بہت سی ملتوں کواس نظریہ کے مقابلہ میں منفعل ومرعوب کیاگیا ہے ،لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملتوں کے درمیان روابط کی وسعت کا لازمی نتیجہ مغربی بالخصوص امریکہ کے تسلط کا زیادہ دیر جاری نہ رہنا ہوگا ۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ خداوند متعال اورقرآن مجید کے وعدہ کے مطابق دنیاکی حاکمیت حضرت مھدی موعود(عج) کی رہبری میں مستضعفین کے ہاتھ میں ہوگی ۔
ترتیب: سید لیاقت علی کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیفہ نور،ج۱۱،ص۲۵۹
[2] صحیفہ نورج۱۵،ص۲۱۲
[3] اس سلسلہ میں امام خمینیؒ فرماتے ہیں :یہ تحریک،تمام دنیامین مستضعفین کی تحریک کے طور پرپھیلنی چاہئے ۔ایران تمام مستضعف ملتوں کے لئے ابتداء اور نمونہ ہے ۔تمام دنیا کے مسلمانوں کواٹھناچاۂے ،بلکہ مستضعفین کو اٹھنا چاہئے ۔مستضعفین کے ساتھ وعدۂ الہٰی ہے جوفرماتاہے کہ ہم مستضعفین پر منت رکھتے ہیں کہ وہ امام بن جائیں اوردنیامیں وارث بن جائیں ۔امامت مستضعفین کا حق ہے ۔
[4] تمہیں جاننا چاہئے کہ (دنیاکی)ملتیں ،حتی وہ ملتیں بھی جو خداپرست نہیں ہیں ،سب مستضعفین ہیں اور ہمیشہ مستکبرین کے تسلّط میں رہی ہیں ۔