حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرینگر/تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ایک بین الاقوامی سطح پر آن لائن سمینار منعقد ہوا جس میں ایران سے معروف عالم دین حجۃالاسلام مرتضی عباسیان امام جماعت مسجد پنبہ چی تہران نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ پروگرام کی نظامت تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ سید عابد حسین نے کی اور پروگرام میں کشمیر کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی، یہ سمینار دو گھنٹے بحث مباحثہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
مرتضی عباسیان نے اپنی تقریر میں عنوان پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے آغاز سے آج تک ایران میں مساجد بہت فعال اور ایکٹیو ہیں درواقع یہ امام جماعت اور مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی کوشش و کاوشوں کا ثمرہ تھا کہ انقلاب کے لئے رضا کار مسجدوں سے ہی فراہم ہوئے اور انقلاب اسلامی مسجد سے ہی شروع ہوا۔
انہوں نے بیان کیا انقلاب سے پہلے بعض مسجدوں میں نماز جماعت منعقد ہوتی تھی اور باقی سب انفرادی عبادت کے لئے مسجدوں کے دروازے کھولے جاتے تھے جب کہ انقلاب اسلامی کے بعد مسجد نے اسلامی سنگر کا مقام حاصل کیا، دفاع مقدس کے لئے ائمہ جماعتوں نے مسجدوں سے ہی جوانوں کو تربیت کی اور ظلم کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا کیا۔
مرتضی عباسیان نے کہا کہ آج بھی جب ایران میں کوئی طبیعی مشکل پیدا ہوتی ہے تو لوگ مسجدوں کی طرف رخ کرتے ہیں، زلزلوں اور سیلابوں میں مسجدوں سے ہی مدد فراہم ہوتی ہے اور جوانوں کو مقام حادثہ پر مسجدوں سے ہی روانہ کیا جاتا ہے۔
آپ نے مسجد پنبہ چی تہران کی فعالیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا اس مسجد میں قرآنی تعلیمات کے ساتھ جوانوں کے لئے بہت سارے ثقافتی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ آپ نے کہا جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کو ایک علمی،ثقافتی،اقتصادی، سیاسی اور عبادی مرکز بنایا اور اس کی پیروی میں امام علی علیہ السلام نے بھی یہی کیا لہذا ہمیں بھی چاہئے انکے نقش قدم پر چل کر ہر مسجد کو اسلامی مرکز بنائیں۔
مولانا نے کہا جب مسجد سے کوئی سرگرمی یا پروگرام ترتیب پاتا ہے تو وہ خودی بخود مورد توجہ پروردگار قرار پاتا ہے اسکی مدد پیغمبر اکرم ؐ اور ائمہ معصومین صلوات اللہ علیھم اجمعین کرتے ہیں اور لوگ بھی جوق در جوق اس پروگرام میں تعاون کرتے ہیں۔
مرتضی عباسیان نے مسجد کی فعالیت کے اصول و ضوابط کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو مسجد میں مختلف امور کے لئے پروگرامنگ جامع اور مانع ہونی چاہئے، دوسرا مسجد سے ہی مسلمانوں اور مومنوں کے اعتقادات اور دینیات کی ترویج و تبلیغ کے ساتھ ساتھ دفاع بھی ہونا چاہئے آپ کا ماننا ہے کہ اگر مسجدوں میں قرآن کے ساتھ ساتھ اہلبیت علیہم السلام بھی ہوں تو انقلاب آسکتا ہے جیسے کہ اسلامی انقلاب آیا ورنہ وہابیت بھی مسجدوں سے فعالیت کرتے ہیں مگر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کوئی انقلاب نہیں آتا ہے وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑا ہے۔
آپ نے لایو پرزنٹیشن کے ذریعہ تہران کی مسجد میں جوانوں کی فعالیت کی جھلکیاں بھی دکھائی۔
قابل ذکر بات ہے کشمیر کے جوان سال انقلابی فکر رکھنے والے ڈاکٹر شاہد صاحب نے سوال جواب سیشن میں پہلے سوال پوچھتے ہوئے سمینار میں مہمان خصوصی کے بیانات سے متاثر ہوتے ہوئے یہ پوچھا کہ کشمیر کی مسجدوں میں کیسے انقلابی ایکٹیوٹی شروع کی جاسکتی ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے آقای مرتضی عباسیان نے کہا اس میں امام جماعت کا خاصا رول ہے اگر امام جماعت مسجد میں بچوں ، نوجوانوں اور جوانوں کے لئے ایک شفیق ماں کا رول نبھائے تو کچھ بھی ممکن ہے۔اور جوانوں کے مطالبہ سے انتظامیہ بھی اور امام جماعت بھی قانع کئے جاسکتے ہیں وگرنہ مستقبل تاریک ہوگا کیونکہ جو بچہ بچپنے میں مسجد کے ساتھ مانوس نہیں ہوگا وہ مسجد سے ہمیشہ گریزان رہے گا آپ نے کہا سوشل میڈیا اور موبائل گیموں کی دلدل سے مسجد ہی بچوں کو چھٹکارا دے سکتی ہے۔ آپ نے کہا کرونا کے دوران ایران کی مسجدیں ماسک بنانے کے سینٹر بنے۔
آقای توفیق جو دانشگاہ کشمیر کے طالب علم ہیں اپنے سوال میں پوچھا امام خمینی نے انقلاب کے آغاز میں جو فرمایا تھا میرے سپاہی ماؤں کے گود میں ہیں کیا یہ فقط ایران کے بچوں کے بارے میں تھا یا پوری دنیا کے بچوں کے بارے میں؟ جواب میں آقای عباسیان نے کہا اگرچہ یہ خطاب ایرانی بچوں کے لئے تھا مگر آج بھی اگر جوان رھبر معظم انقلاب کے باتوں کو عملی جامعہ پہنے گے تو یقینا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہم شریف کی ظہور کی زمینہ فراہم ہوگا۔ آپ نے کہا آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی صاحب نے ایرانی سابقہ صدر آقای رفسنجانی سے ملاقات کے دوران فرمایا تھا کہ رہبر کے مطیع رہے اسی طرح مرحوم آیت اللہ حسن زادہ آملی بھی رہبر کی پیروی کی سفارش کرتے تھے اور سردار شہید قاسم سلیمانی تو کہتے تھے وہی عاقبت بخیر ہوگا جو رہبر کا اتباع کرے گا۔
حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید عابد حسین حسینی سربراہ تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے آخر پر انسٹیٹیوٹ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی اور انہوں نے پورے پروگرام کے دوران مرتضی عباسیان کی تقریر جو فارسی میں تھی اس کا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا ۔