۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مقصود ڈومکی پریس کانفرنس

حوزہ / مرکزی ترجمان مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فرقہ وارانہ اختلافات پر مبنی قانون سازی سے اجتناب کیا جائے، کسی شیعہ کو ہاتھ باندھ کر نماز یا کسی سنی کو ہاتھ کھلے رکھ کر نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی ترجمان مجلس وحدت مسلمین علامہ مقصود علی ڈومکی،علامہ ہاشم موسوی آغا سید محمد رضا و دیگر نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں متفقہ پریس کانفرنس کی ہے۔

علامہ مقصود علی ڈومکی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا: 21 اگست 2020 کو وزارت مذہبی امور نے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی، وزارت مذہبی امور کے اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فرقہ وارانہ اختلافات پر مبنی قانون سازی سے اجتناب کیا جائے، کسی شیعہ کو ہاتھ باندھ کر نماز یا کسی سنی کو ہاتھ کھلے رکھ کر نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، متنازعہ نصاب کے حوالے سے 27 مارچ سے 2 اپریل تک ہفتہ نصاب منارہے ہیں، یکم اپریل کو متنازعہ نصاب کیخلاف ملک گیر یوم احتجاج منائینگے، متنازعہ نصاب کیخلاف 2 اپریل کو کوئٹہ جبکہ 10 اپریل کو لاہور میں صوبائی تعلیمی کانفرنسز منعقد کرینگے۔

اس پریس کانفرنس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معزز صحافی حضرات؛ سلام علیکم

وطن عزیز پاکستان لا الٰہ الاللہ کے نام پر معرض وجود میں آیا جس کے بنانے میں سنی و شیعہ مسلمانوں نے مل کر قربانیاں دیں اور ایک آزاد اور خودمختار وطن کے قیام کے ذریعے اسلام کے زریں اصولوں پر استوار زندگی گزارنے کا خواب دیکھا۔ یہ وطن کسی مسلک اور فرقے کی بنیاد پر نہیں بنا بلکہ شیعہ سنی مسلمانوں نے متحد ہوکر پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا اوردشمن کی تمام تر سازشوں کے باوجود الحمد للہ آج بھی ہمارے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارہ موجود ہے۔ بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح شیعہ مسلمان تھے جبکہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال سنی مسلمان تھے۔ پاکستان میں اسلامی رواداری، اخوت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے کے لیے قوم کے اکابرین نے کاوشیں کیں اورقرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا آئین بنایا گیا جس میں ان تمام پہلووں کا خیال رکھا گیا جو اس ملک کو اسلامی سرزمین بنانے کے لیے ضروری تھا۔ کسی ملک میں قوم کی تشکیل کے مراحل اور اس کے رشد و تکامل کے لیے اس قوم کا تعلیمی نصاب و ہ سانچہ ہے جس میں اس کی نسلیں تیار ہوتی ہیں۔ اس تعلیمی نصاب کوجہاں تکنیکی و علمی اعتبار سے دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے وہاں آئین میں بیان کی گئیں اسلامی اخوت اور دینی رواداری کے زریں اصولوں پر مبنی اسلامی تصور حیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔

وطن عزیز پاکستان میں غریب کے لیے الگ تعلیم، امیر کے لیے الگ تعلیم، مدرسوں کے لیے الگ تعلیم سب الگ الگ پیداوار دینے لگیں۔ یہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری اس بات کی متقاضی رہی کہ ان دوریوں کو ختم کیا جائے۔ یکساں قومی نصاب اس حوالے سے اہم اور دیرینہ ہدف کو انجام دینے کے ارادے کے ساتھ شروع کیا گیا لیکن یہ کام بھی سازشوں کے نتیجے میں اپنی اصل منزل سے کوسوں دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ یکساں قومی نصاب اپنے پہلے بیان کردہ ہدف کو حاصل کرنے کی بجائے اپنے اصل آئینی اور نظریاتی ہدف جیسے مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے اعلیٰ اہداف کو بھی محو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔اس نصاب کی تدوین میں بالخصوص اسلامیات، اردو اور معاشرتی علوم میں بعض ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو عقیدتی، فقہی اور تاریخی اعتبار سےدین اسلام کے مسلمہ اصولوں سے متصادم اور آئین پاکستان میں ذکر شدہ شہری حقوق اوراہل تشیع کی مذہبی آزادی سے متصادم ہیں۔ اس لئے یہ مکتب تشیع کے نزدیک ناقابل قبول نصاب ہے۔

انتہائی افسوس کی بات ہےکہ قومی اسمبلی کی ایک قرارداد مورخہ 21اگست2020 کو بنیاد بنا کر وزارت مذہبی امور نے عجلت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں سے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسی نوٹیفکیشن کی رو سے صدیوں سے رائج درود ابراہیمی کواسی یکساں قومی نصاب کے لیے دفتری و غیر دفتری تحریروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس نوٹیفیکشن کو فورا منسوخ کیا جائے اور تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ مسنون درود کو دفتری و غیر دفتری طباعت پر لاگو کیا جائے۔ یہ درود ابراہیمی دنیا کے تمام مسلمانوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ درود ہے ۔اس متفق علیہ درود شریف کی جگہ ایک ایسی عبارت کو درود ابراہیمی کی جگہ پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے جو خود اہل سنت کے ہاں بھی ثابت نہیں، اہل سنت کی کسی معتبر کتاب میں یہ درود موجود نہیں۔ گزشتہ نصاب میں بھی وہی درود شامل نصاب رہاہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ آئندہ ایسی کسی بھی قانون سازی سے اجتناب کرے جو قرآن و سنت سے متصادم ہے اور جو دینی احکام میں دخالت پر مبنی ہو۔

اب میں آپ کے سامنے یکساں قومی نصاب کے متنازعہ نکات کی نشاندہی کروں گا۔

۱۔ تمام ایسے موارد جن پر مسلمانوں کے فرقوں میں اختلاف رائے موجود ہے ، نصاب میں ان اختلافی موارد کو اچھا لنا ملی یکجہتی کے منافی ہو گا۔ ایسے موضوعات پر مسلمانوں کی متفقہ رائے کو ہی شامل نصاب کیا جائے۔ وہی شخصیات یکساں قومی نصاب میں شامل کی جائیں جو مسلمانوں کے درمیان یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔

۲۔ حضرت حمزہ سیدالشہداؓ ، حضرت مصعب بن عمیرؓ ، عاشق رسول ﷺ حضرت اویس قرنیؓ، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت مقداد ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو شامل نصاب کیا جائے، جن کی عظمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔

۳۔ زکوۃ کی اہمیت و فضیلت کے موضوع پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے مگر بعض جزئی احکام اور فقہی مسائل میں مسلمان فقہی مکاتب میں اختلاف نظر موجود ہے۔ ایسے اختلافی موارد میں شیعہ طلبہ پر دوسرے مسلک کی تعلیمات مسلط کرنے کی بجائے اس کی تفصیل کا حصول طلباء کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔

۴۔ صوفیا ء و اولیاء اور فاتحین کے باب میں شیعہ مکتبہ فکر کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل تشیع میں ایسےسینکڑوں عالم ،محدث، مفسر، مورخ، فلاسفر ، عارف، فقیہ گذرے ہیں جنہوں نے دین اسلام اور امت مسلمہ کے لئے قابل قدر اور قابل فخر خدمات انجام دیں۔ جن کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ اسلامیات کے موجودہ نصاب میں ان شخصیات کو مکمل طور پرنظر انداز کیا گیا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ نصاب تعلیم میں خاندان بنو امیہ و بنو عباس اور فاتحین کا تذکرہ تو شامل کیا گیا ہے مگر خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے آئمہ اہل البیت علیہم السلام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

نصاب کی بہتری کے لیے چند تجاویز:

مذہب کی تعلیم ہر بچے کو اس کے اپنے مکتب فکر کے عقائد، حدیث اور فقہ کے مطابق پڑھائی جائے جس کے لیے نصاب سازی، درسی کتب کی تدوین، تدریس اور امتحانی نظام کی تشکیل میں ہر مکتب فکر کے جید علماء شریک ہوں۔

آئین مذہبی تعلیم کے حوالے سے کسی ایک مسلک کی تعلیمات کو کسی دوسرے مسلک پر مسلط کرنے سے منع کرتا ہے لہذا نصاب میں مذہبی تعلیمات شامل کرتے ہوئے اس آئینی اصول کو ملحوظ رکھا جائے۔

مذہب کی تعلیم کے لیے شیعہ سنی بچوں کے لیے 1975 کے نصاب کی طرز پر علیحدہ نصاب ترتیب دیا جائے۔

اسلامیات کے نصاب سے متنازعہ شخصیات کے ابواب حذف کیے اور ان کی جگہ مسلمہ اور متفقہ اسلامی شخصیات شامل کی جائیں۔

مختلف نصابی کتب سے دل آزار مواد کو نکالا اور صرف مشترکہ اور متفقہ مذہبی مواد شامل کیا جائے۔

امام مہدی عج پر مسلمانوں کا متفقہ اور مسلمہ عقیدہ ہے اسے مستقبل کی امید اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے تناظر میں نصاب میں شامل کیا جائے۔

درود شریف کی عبارت میں تبدیلی سنت نبوی اور کئی سو سالوں کی امت مسلمہ کی روایت کے خلاف ہے اس تبدیلی کو واپس لیا جائے۔

نصاب کے لیے متعارف کروائے گئے اقداری نظام پر نظر ثانی اور اسے علامہ اقبال رح کے اسلامی اقداری نظام سے ہم آہنگ کیا جائے اور اس میں خودی، غیرت، حمیت، ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت، شجاعت، حریت اور سماجی انصاف جیسی اعلی اقدار شامل کی جائیں اور نصاب و درسی کتب میں اس کے مطابق تبدیلی کی جائے۔

اہل بیت اطہار خصوصاً ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات امت مسلمہ کا متفقہ اور قیمتی ورثہ ہے۔ نصاب میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی اخلاقی، سماجی، فقہی، اور روحانی تعلیمات کو شامل کیا جائے۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شان و منزلت قرآن و سنت میں ثابت اور مسلمانوں کے نزدیک اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نام سے نصاب میں باقاعدہ باب قائم کیے جائیں اور ان کی شان و منزلت اور دین اسلام کے لیے قربانیوں و خدمات کو پیش کیا جائے۔

اس صورتحال میں پاکستان میں بسنے والے کروڑوں شہری اپنے عقائد اور دینی تعلیمات کو شدید خطرے میں دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کے آئین کی شق نمبر 22 میں واضح طور پر لکھا ہے۔ "کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان متنازعہ فرقہ وارانہ غیرآئینی نصاب تعلیم کے حوالے سے 27 مارچ سے 2 اپریل تک ھفتہ نصاب منا رہی ہے۔ جبکہ جمعہ یکم اپریل کو متنازعہ غیرآئینی نصاب کے خلاف ملک گیر یوم احتجاج منایا جائے گا۔ ھفتہ نصاب کے دوران عوامی آگہی مہم شروع کی جائے گی۔ اھل سنت اور اھل تشیع کے علمائے کرام اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے ملاقاتیں کرکے نصاب کے منفی حیثیت سے آگاہ کیا جائے گا۔ اور ان سے مشاورت کی جائے گی۔

12 مارچ کو ملک بھر کے علمائے کرام خطبا تنظیمی نمائندگان اور اکابرین ملت پر مشتمل ایک ملک گیر قومی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں متفقہ طور پر متنازعہ نصاب کو مسترد کرتے ہوئے 1975 کے نصاب تعلیم کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک کے پانچوں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں صوبائی نصاب تعلیم کانفرنسز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کانفرنسز میں علمائے کرام ماہرین تعلیم دینی مدارس اور سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ و منتظمین وکلاء اور اھل علم و دانش خواتین شریک ہوں گی۔

اس سلسلے میں 2 اپریل بروز ہفتہ کوئٹہ میں جبکہ 10 اپریل بروز اتوار لاہور میں صوبائی تعلیمی کانفرنسز منعقد ہوں گی۔

ہم آخر میں مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی نصاب 1975 کو بحال کرتے ہوئے ملک میں اتحاد بین المسلین اخوت اور ھمآھنگی کی فضا کو فروغ دیا جائے۔

شرکائے پریس کانفرنس:

علامہ مقصودعلی ڈومکی، کنوینیر نصاب کمیٹی و مرکزی ترجمان مجلس وحدت مسلمین پاکستان

1۔ آغا سید محمد رضا، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل، سابقہ صوبائی وزیر قانون

2۔ علامہ سید ہاشم موسوی، امام جمعہ کوئٹہ و مرکزی رہنما ایم ڈبلیو ایم

3. علامہ شیخ ولایت حسین جعفری، صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل

4۔ ارباب لیاقت علی ہزارہ، ضلعی سیکریٹری جنرل کوئٹہ سٹی

5. عیوض علی کربلائی، سیکریٹری جنرل ہزارہ ٹاون ضلع

پاکستان کو شیعہ سنی مسلمانوں نے مشترکہ جدوجہد سے بنایا، علامہ مقصود علی ڈومکی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .