۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
تصاویر/ دیدار صدها نفر از مردم اصفهان با رهبر معظم انقلاب

حوزہ/ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں ایرانی قوم کے مقابلے میں سامراج کی صف آرائي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سامراج ایرانی قوم کے مقابلے میں اپنی نظریاتی صف آرائي میں، ایران دشمنی میں شدت پیدا کرکے عوام خاص طور پر جوانوں کے ذہنوں میں مایوسی اور تعطل کی سوچ ڈالنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سنیچر کی صبح اصفہان سے آنے والے سیکڑوں لوگوں سے ملاقات کی۔

آپ نے اس ملاقات میں ایرانی قوم کے مقابلے میں سامراج کی صف آرائي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سامراج ایرانی قوم کے مقابلے میں اپنی نظریاتی صف آرائي میں، ایران دشمنی میں شدت پیدا کرکے عوام خاص طور پر جوانوں کے ذہنوں میں مایوسی اور تعطل کی سوچ ڈالنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے سامراج کو اصل تکلیف یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پیشرفت کرے اور دنیا میں اس کا نام روشن ہو تو مغربی دنیا کی لبرل ڈیموکریسی کا نظریہ سوالوں کے گھیرے میں آ جائے گا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سوال کیا کہ "ہم کس طرح پیشرفت کریں؟" پھر اس کے جواب میں فرمایا کہ پیشرفت کے لیے متعدد وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پیشرفت کا سب سے اہم وسیلہ، امید ہے اور اسی لیے دشمن نے اپنی پوری طاقت و توانائي، لوگوں میں مایوسی اور تعطل کا احساس پیدا کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔

انہوں نے ایران دوستی کا ایک اشاریہ، امید آفرینی کو بتایا اور کہا: جو لوگ مایوسی اور تعطل کا احساس پھیلاتے ہیں، وہ ایران کے دشمن ہیں، وہ ایران سے دوستی کا دعوی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے لبرل ڈیموکریسی کی بیانیے کے ذریعے پوری دنیا کے مختلف ملکوں پر مغرب کا تسلط قائم کئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: پچھلی تین صدیوں میں مغرب نے آزادی کے فقدان یا ڈیموکریسی کے فقدان کے بہانے ملکوں کے وسائل کو لوٹا اور تہی دست یورپ، بہت سے امیر ملکوں کو مٹی میں ملا کر مالامال ہو گيا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں ایک نظام نے مذہب اور مذہبی جمہوریت کی بنیاد پر اپنے عوام کو حقیقی تشخص عطا کیا ہے، انھیں حقیقی حیات عطا کی ہے اور درحقیقت مغرب کے لبرل ڈیموکریسی کے نظریے کو باطل کر دیا ہے۔

انہوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر مختلف ملکوں میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف اقدام کو مغرب کا حربہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان اس کا ایک واضح نمونہ ہے جس پر امریکیوں نے عوامی حکومت نہ ہونے کے بہانے فوجی حملہ کیا لیکن بیس سال تک جرائم اور لوٹ مار کے بعد وہی حکومت اقتدار میں آ گئي جس کے خلاف انھوں نے اقدام کیا تھا اور پھر امریکی وہاں سے بڑے ذلت آمیز طریقے سے باہر نکلے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ، امریکا اور سامراج کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک دیتی اور ان کی منہ زوری اور غنڈہ گردی کے سامنے سر جھکا دیتے تو اس پر دباؤ کم ہوتا لیکن وہ، اسلامی جمہوریہ پر مسلط ہو جاتے۔ انھوں نے کہا کہ ان برسوں میں جب جب دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ڈنکا بجا، تب تب اسلامی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا کہ آج ہمارے ملک کا بنیادی چیلنج، "پیشرفت، ٹھہراؤ، ایک جگہ جم جانا اور رجعت پسندی" ہے کیونکہ ہم پیشرفت کر رہے ہیں لیکن سامراجی طاقتیں، ایران کی ترقی و پیشرفت سے طیش اور اضطراب میں آجاتی ہیں اور پیچ و تاب کھانے لگتی ہیں۔ اسی غصے اور اضطراب کی وجہ سے امریکی اور یورپی حکومتیں میدان میں آ رہی ہیں لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں تھیں، مستقبل میں بھی کچھ نہیں بگاڑ پائيں گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران اور سامراج کے درمیان بنیادی جنگ میں، امریکا، فرنٹ لائن پر ہے جبکہ یورپ، امریکا کے پیچھے کھڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں سبھی امریکی سربراہان مملکت، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنے پالتو اور کٹکھنے کتے یعنی صیہونی حکومت اور بعض علاقائي ممالک سمیت جس سے بھی ممکن ہوا مدد لی۔ انھوں نے کہا کہ ان ساری کوششوں کے باوجود، مجموعی طور پر ایرانی قوم کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں، ایران کے حالیہ ہنگاموں کی اسکرپٹ لکھنے والوں کا اصل ہدف، قوم کو میدان میں لانا بتایا اور کہا: اب جب وہ عوام کو میدان میں نہیں لا سکے تو شر انگیزی پر اتر آئے ہیں تاکہ عہدیداروں اور ذمہ داروں کو تھکا دیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ ان کی ان شیطانی حرکتوں سے عوام، بیزار ہو جائيں گے اور ان سے مزید نفرت کرنے لگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر شیطانی حرکتوں کی بساط لپیٹ دی جائے گي اور ایرانی قوم، زیادہ قوت اور نئے جذبے کے ساتھ ملک کی پیشرفت کے میدان میں قدم بڑھائے گي۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دھمکیوں اور خطروں کو مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کو، ایک باایمان قوم کی فطرت کا حصہ بتایا اور حالیہ ہفتوں میں ہونے والی پیشرفت اور آگے کی جانب بڑھائے جانے والے قدموں کے کچھ نمونوں کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلڈ کینسر کے علاج کے لیے ایک نئے طریقے تک ایرانی سائنسدانوں کی رسائی، تیل اور گيس نکالنے کی ایک پیشرفتہ مقامی مشین کی ایجاد، سیستان و بلوچستان کے ایک حصے میں ریلوے لائن کا افتتاح، جو شمال سے جنوب کی جانب ریلوے نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ ہے، کئي بڑے کارخانوں کا افتتاح، ملک سے باہر پہلی ریفائنری کا افتتاح، چھے بجلی گھروں کا افتتاح، دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی اسکوپس میں سے ایک کی رونمائي، سیٹیلائٹ کیرئیر راکٹ کو خلا میں بھیجنا اور ایک نئے میزائل کی رونمائي، یہ سب بلندی کی جانب ملک کے سفر کے نمونے ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت انجام پایا ہے جب دشمن، ہنگاموں کے ذریعے ان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان ہنگاموں کی وجہ سے ایک اور موقع یہ حاصل ہوا کہ ان سے، ہنگاموں کے ہدایتکاروں اور ایرانی قوم کی حمایت کے دعویداروں کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو گيا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے تمام مطالبات اور مقدسات سے دشمنی یعنی اسلام سے دشمنی، قرآن سوزی، مسجد کو نذر آتش کرنا، ایران سے دشمنی، ایران کے پرچم کو نذر آتش کرنا، قومی ترانے کی بے حرمتی جیسی حرکتوں نے ہنگاموں کے منصوبہ سازوں کے حقیقی چہرے سے نقاب الٹ دی۔

انہوں نے کہا کہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ ایرانی قوم کے حامی ہیں جبکہ ایرانی قوم، مسلمان قوم اور قرآن اور امام حسین کی قوم ہے، تو جو لوگ امام حسین، اربعین اور اس کے ملین مارچ کی توہین کرتے ہیں، بے حیائي کا مظاہرہ کرتے ہیں، کیا وہ ایرانی قوم کے حامی ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اپنے خطاب کے ایک حصے میں صوبۂ اصفہان کی دو ٹاسک فورس کی حیثیت سے امام حسین (علیہ السلام) ڈویژن اور نجف ڈویژن کے کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تقریبا چوبیس ہزار شہیدوں، دسیوں ہزار جنگي مجروحین، ہزاروں جنگي قیدیوں اور ایسے سرفراز گھرانوں کا وجود جنھوں نے اسلام، انقلاب اور ایران کو دو سے سات شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس صوبے کے قابل فخر کارناموں کے دستاویزات اور انقلابی و جہادی تشخص کی علامتیں ہیں اور ان کی حفاظت ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔

انہوں نے 16 نومبر 1982 کو اصفہان میں نکلنے والے تقریبا 360 شہیدوں کے جلوس جنازہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: خون میں ڈوبے اتنے سارے جوانوں کے لاشے ایک پورے شہر کو غم و اندوہ سے مفلوج کر سکتے تھے لیکن اصفہانیوں نے ایمان کے بھرپور جذبے کے ساتھ، اسی دن مزید جوانوں کو محاذ جنگ پر بھیجا اور امدادی اشیاء کے اپنے بڑے بڑے کارواں جنگی علاقوں کی طرف روانہ کیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .