۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنی ت‍قریر کے دوران کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی جمہوریہ کی روح ہیں اور اگر اس روح کو اسلامی جمہوریہ سے لے لیا جائے اور عدم توجہ کا شکار بنا دیا جائے تو اسلامی جمہوریہ نقش دیوار بن کر رہ جائے  گی۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنی ت‍قریر کے دوران کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی جمہوریہ کی روح ہیں اور اگر اس روح کو اسلامی جمہوریہ سے لے لیا جائے اور عدم توجہ کا شکار بنا دیا جائے تو اسلامی جمہوریہ نقش دیوار بن کر رہ جائے گی۔

تصویری جھلکیاں: امام خمینی کی برسی کے پروگرام سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سنیچر کی صبح رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تینتیسویں برسی کے موقع پر ان کے مزار پر منعقدہ پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے امام خمینی کو اسلامی جمہوریہ کی روح، حقیقی معنی میں غیر معمولی شخصیت اور ایرانی قوم کے کل، آج اور آئندہ کل کا امام بتایا اور کہا: آج کی نوجوان اور ذی فہم نسل کو ملک کے مستقبل کا انتظام چلانے اور قوم کو پرشکوہ چوٹیوں تک پہنچانے کے لیے ایک قابل اطمینان، جامع، سرعت بخش اور تغیر آفریں سافٹ ویئر یعنی امام خمینی کی گفتار اور ان کے کردار سے ملنے والے دروس کی ضرورت ہے۔

دو سال کے وقفے کے بعد عوامی شرکت سے منعقد ہونے والے اس پروگرام میں رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی شخصیت کے ناشناختہ پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس حکیم اور رہنما شخصیت کے بارے میں بے شمار باتوں اور تحریروں کے باوجود، ان کی عظمت، ان کی شخصیت کی طاقت اور ان کی قیادت کے بارے میں ان کہی باتیں بہت زیادہ ہیں اور نوجوان نسل کو، جو امام خمینی کو صحیح طریقے سے نہیں پہچانتی، قومی و انقلابی ذمہ داری کا بوجھ سنبھالنے، انقلاب کا اگلا قدم اٹھانے اور ملک کے صحیح انتظام و انصرام کے لیے مکتب امام خمینی کے فیصلہ کن دروس کو سیکھنا چاہیے تاکہ پورے اطمینان کے ساتھ، ملک کے درخشاں افق کی جانب قدم بڑھا سکے۔

انھوں نے اسلامی انقلاب کو، انقلابوں کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب بتایا اور دو مشہور ہم عصر انقلابوں یعنی انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے اسلامی انقلاب کا موازنہ کرتے ہوئے کہا: ان دونوں انقلابوں میں روحانیت کو بھلا دیا گيا تھا اور دونوں ہی انقلاب کچھ ہی عرصے میں راستے سے ہٹ گئے اور عوام الناس کو، جو ان انقلابوں کی کامیابوں کے باعث تھے، حاشیے پر ڈال دیا گيا اور عملی طور پر لوگ، انقلاب سے پہلے کے دور میں پہنچ گئے جبکہ اسلامی انقلاب، کامیابی کے بعد بھی لگاتار انتخابات، عوام پر مسلسل بھروسے اور انسان کے مادی اور روحانی پہلوؤں پر گہری توجہ کے ساتھ آگے بڑھتا گيا ہے اور یہ حقائق، تاریخ کے تمام انقلابوں پر اسلامی انقلاب کی برتری کے نمایاں دلائل میں شامل ہیں اور امام خمینی کی قیادت کی عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی موجودگي کو انقلاب کی کامیابی کا بنیادی سبب قرار دیا لیکن اسی کے ساتھ کہا کہ وہ مضبوط ہاتھ، فولادی شخصیت، اطمینان سے لبریز دل اور ذوالفقار جیسی زبان، جس نے قوم کے اس عظیم سمندر کو میدان میں اتار دیا، اسے متلاطم کر دیا، اسے مایوسی کا شکار ہوئے بغیر میدان میں ڈٹے رہنے پر آمادہ کیا اور اسے آگے بڑھنے کی سمت دکھائي، وہ عظیم ہستی امام خمینی تھے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی پرمغز اور بامعنی قیادت اور جدوجہد کے میدان کے تعین میں ان کی اثر انگیزی کی تشریح کرتے ہوئے، اسلامی انقلاب کی تحریک اور اسلامی جمہوریہ کے زمانے کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: امام خمینی نے اپنی زندگي کے آخری سال کے بیانوں اور اپنی وصیت میں اپنے بعد تک کی جدوجہد کے میدان کی نشاندہی کر دی ہے۔انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اپنی ذاتی خصوصیات کے لحاظ سے حقیقی معنی میں منفرد انسان تھے، ان کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا اور کہا: پاکیزگي اور تقوی، روحانیت اور عرفان، شجاعت، حکمت اور دانشمندی، احتساب، مستقبل کی طرف سے امید، سچائي، وقت شناسی، نظم و ضبط، اللہ کے وعدوں پر توکل اور بھروسہ اور جدوجہد، امام خمینی کی کچھ نمایاں خصوصیات تھیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی کچھ نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کے مکتب فکر کے بنیادی اصولوں کی تشریح کی اور کہا: چاہے جدوجہد کا زمانہ ہو یا انقلاب کا دور ہو، امام خمینی کے مکتب فکر کی بنیاد تھی اللہ کے لیے قیام اور یہ بنیاد قرآنی اصولوں سے ماخوذ تھی۔

آيۃ اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے وقت امام خمینی کے اقدامات کے کچھ نمایاں نکات کا ذکر کیا اور کہا: اس وقت امام خمینی کی سب سے بڑی فکرمندی، مغربی کلچر اور اصطلاحات سے اسلامی جمہوریہ کے نظریے کو دور رکھنے کی تھی۔ اسی بنیاد پر ان کا اصرار تھا کہ اسلامی جمہوریہ، مغربی جمہوریت اور ڈیموکریسی سے مستعار چیز نہیں ہے بلکہ یہ، ح‍قیقی اسلام سے ماخوذ ہے۔انھوں نے کہا کہ امام خمینی کے نئے آئیڈیل کی ایک اہم خصوصیت، بظاہر متضاد نظر آنے والی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنا تھا اور امام خمینی نے جو نیا سیاسی نظام پیش کیا اس میں روحانیت بھی ہے اور عوام کا ووٹ بھی ہے، اس میں احکام الہی کا نفاذ بھی ہے اور عمومی ضروریات اور مصلحتوں کا لحاظ بھی ہے، اس میں معاشی انصاف پر تاکید اور کمزوروں کی حالت پر توجہ بھی ہے اور ثروت کی پیداوار پر اصرار بھی ہے، اس میں ظلم کی بھی نفی ہے اور ظلم برداشت کرنے کی بھی نفی ہے، اس میں علم اور معیشت کی تقویت بھی ہے اور ملک کے دفاعی ڈھانچے کا استحکام بھی ہے، اس میں قومی اتحاد و یکجہتی بھی ہے اور مختلف آراء اور گوناگوں سیاسی رجحانات کو تسلیم کیا جانا بھی ہے، اس میں عہدیداروں کے تقوی اور پاکیزگي پر بھی تاکید ہے اور کام میں ان کی مہارت پر زور بھی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایک اہم سوال پیش کیا اور کہا: یہ مکتب فکر اور آئيڈیل جسے امام خمینی نے تیار کیا اور اس کی بنیاد رکھی، کس حد تک ان کے زمانے میں اور ان کے بعد عملی جامہ پہن سکا ہے؟ انھوں نے کہا کہ انقلاب کی کامیابی کی ابتدا سے لے کر آج تک دشمنوں کے وسیع محاذ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دشمنی، اسلامی جمہوریہ نے شروع نہیں کی ہے بلکہ چونکہ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ہی ظلم، سامراج اور برائيوں کی مخالفت اور روحانیت کی حمایت پر رکھی گئي ہے اس لیے فطری طور پر ظالم، سامراجی عناصر، برائياں پھیلانے والے اور روحانیت کے مخالفین، اس سے دشمنی کر رہے ہیں۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کا ایک اور سبب، مغرب والوں سے دوری اختیار کرنے کی امام خمینی کی روش تھی، آپ نے کہا: فلسطین کی حمایت اور غاصب (صیہونی) حکومت کا سفارتخانہ فلسطینی قوم کو دے دینا، یورپی ملکوں اور امریکا کی ریاکاریوں اور جرائم پر تنقید اور مغربی تمدن اور فکر سے اسلامی تمدن، فکر اور نظام کو دور رکھنا امام خمینی کے اہم اقدامات میں شامل ہے۔انھوں نے اسی طرح لوگوں کو استقامت کے مفہوم سے آگاہ کرنے اور قوم میں استقامت کی روح پھونکنے کو امام خمینی کا ایک دوسر اہم کارنامہ بتایا اور کہا: امام خمینی کی برکت سے آج ایرانی قوم، پوری طرح سے ایک مضبوط، مستحکم اور استقامت کرنے والی قوم ہے اور استقامت دنیا کی سیاسی ڈکشنری کے نمایاں الفاظ میں تبدیل ہو گئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایرانی قوم کے خلاف دشمن کی دو سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا: اس سازش کا پہلا حصہ، ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے عوامی احتجاج سے امید لگانا ہے اور وہ سائبر اسپیس، سوشل میڈیا پر نفسیاتی لحاظ سے کام کرکے، بے تحاشا پیسے خرچ کر کے، اپنے پٹھوؤں کو استعمال کر کے اور مختلف حربوں کے استعمال سے عوام کو اسلامی نظام کے سامنے لا کھڑا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔انھوں نے کہا کہ اس سازش کا دوسرا حصہ، اسلامی جمہوریہ کے رو بہ زوال ہونے کے بارے میں غلط اندازے اور تخمینے لوگوں کے ذہن میں انڈیلنا ہے، ایرانی قوم کے بدخواہ اسلامی انقلاب کی شروعات میں کہتے تھے کہ چھے مہینے میں یہ انقلاب ختم ہو جائے گا اور جب ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے تھے تو اگلے چھے مہینے کا وعدہ کرتے تھے جبکہ آج اس طرح کے اسّی عدد 'چھے مہینے' گزر چکے ہیں اور وہ ننھا سا پودا ایک تناور اور تنومند درخت میں بدل چکا ہے جبکہ ان کے آج کے اندازے بھی کل ہی کی طرح بالکل غلط ہیں۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ اسلامی جمہوریہ میں، عوامی عنصر، بڑا ہی اہم عنصر ہے اور دشمن، کبھی بھی قوم کو اسلامی نظام کے خلاف لا کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔انھوں نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں انقلابی، سماجی، سیاسی اور معاشی میدان میں کام کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے سات اہم سفارشات بیان کیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے ذہین اور با ہوش نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی پہلی سفارش میں کہا کہ دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کو موقع نہ دیجئے کہ آپ کے انقلاب کا تشخص ختم کریں اور اس کے حقائق برعکس شکل میں دکھائیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی یاد کو انقلاب کی روح بتاتے ہوئے اپنی دوسری سفارش میں کہا کہ امام خمینی کی یاد کو معاشرے میں پھیکا نہ پڑنے دیجیے اور اسی طرح ان کی شخصیت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی اجازت نہ دیجیے۔رہبر انقلاب اسلامی نے بنیاد پرستی کے اثرات کی روک تھام کو اپنی تیسری سفارش بتاتے ہوئے کہا کہ بنیاد پرستی کا مطلب، مغربی سیاست اور طرز زندگي کی طرف لوٹنا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ بدعنوان پہلوی حکومت کے دور میں پائے جانے والے طرز زندگي کے اثرات سے ملک، رجعت پرستی کی طرف بڑھنے لگے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی چوتھی سفارش میں دشمن کے جھوٹ، فریب اور نفسیاتی جنگ کا راز فاش کیے جانے پر تاکید کرتے ہوئے، اس نفسیاتی جنگ کے کچھ نئے نمونوں کا ذکر کیا اور کہا: کچھ عرصہ قبل یونان کی حکومت نے امریکیوں کے حکم پر ہمارا تیل چرا لیا لیکن جب اسلامی جمہوریہ کے جاں بکف دلیروں نے دشمن کے بحری جہاز کو پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے ایران پر چوری کا الزام لگایا جبکہ انھوں نے ہمارا تیل چرایا تھا اور چوری کا مال واپس لینا چوری نہیں ہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے عمل صالح کی انجام دہی کے لیے عوامی ایمان کے سرمائے سے استفادے کو اپنی پانچویں سفارش بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے بندگلی میں پہنچ جانے کے پروپیگنڈے کی روک تھام کو اپنی چھٹی سفارش بتاتے ہوئے کہا: سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں غفلت کی بنا پر یا پیسے کے لیے کچھ لوگوں کا کام یہ پروپیگنڈہ کرنا ہے کہ ملک بند گلی میں پہنچ گیا ہے۔ البتہ امام خمینی کے زمانے میں بھی کچھ لوگوں نے اخباروں میں لکھا کہ ملک بند گلی میں پہنچ گيا ہے جس پر امام خمینی نے کہا تھا کہ یہ آپ ہیں جو بند گلی میں پہنچ گئے، اسلامی جمہوریہ نہیں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی آخری سفارش، انقلابی عہدیداروں کی قدردانی بتایا اور کہا: امام خمینی جس طرح عہدیداروں سے سختی سے پیش آتے تھے اسی طرح وہ بعض موقعوں پر کھل کر ان کی قدردانی بھی کرتے تھے، بنابریں آج جب دشمن، انقلابی عہدیداروں کی شبیہ بگاڑنا کے درپے ہے تو، قدردانی کی بھاری ذمہ داری ادا کی جانی چاہیے۔

اس پروگرام کے آغاز میں حجۃ الاسلام سید حسن خمینی نے تقریر کرتے ہوئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ایرانی قوم کی آزادی و خود مختاری کا نقیب بتایا اور کہا: امام خمینی ایک خالص حقیقت، پاکیزہ روح اور درخشاں اسلامی و عوامی اغراض و مقاصد کے مظہر تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .