۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
تشیع نمادین حضرت زهرا سلام الله علیها و عزاداری زائرین و مجاورین علی ابن موسی الرضا علیه السلام در مشهد مقدس

حوزہ/وہ فاطمہ زہراء جو کنیز خدا بنیں وہ فاطمہ زہراء جو وجہ تبسم رسالت بنیں وہ فاطمہ جو وجہ تعارف پنجتن بنیں وہ فاطمہ زہراء جو شکستہ پہلو کے باوجود دفاع ولایت میں مصروف عمل رہیں کیونکہ بی بی یہ جانتی تھیں کہ اگر ولایت علی مٹ گئی تو نبوت و توحید خودبخود مٹ جائے گی۔

تحریر: ارم زہراء

حوزہ نیوز ایجنسی | وہ فاطمہ زہراء جو کنیز خدا بنیں وہ فاطمہ زہراء جو وجہ تبسم رسالت بنیں وہ فاطمہ جو وجہ تعارف پنجتن بنیں وہ فاطمہ زہراء جو شکستہ پہلو کے باوجود دفاع ولایت میں مصروف عمل رہیں کیونکہ بی بی یہ جانتی تھیں کہ اگر ولایت علی مٹ گئی تو نبوت و توحید خودبخود مٹ جائے گی، تبھی تو پروردگار نے فرمایا: کہ اے محمد اگر تم نا ہوتے تو میں ان افلاک کو خلق نا کرتا اگر علی نا ہوتے تو میں تمہیں خلق نا کرتا اگر تم فاطمہ نا ہوتی تو میں تم دونوں کو خلق نہ کرتا۔(1) جناب زہراء کی یہ فضیلت اس وجہ سے نہیں تھی کہ آپ دختر رسول یا پھر زوجہ امیر المومنین تھی...!بلکہ آپکی یہ فضیلت اس وجہ سے تھی کہ آپ نے پوری زندگی کو سیرت رسول میں ڈھال لیا تھا دختر رسول کی زندگی کے تمام پہلو انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے وہ نہ فقط عورتوں کے لئے بلکہ مردوں کے لیے بھی اسوہ ہیں تبھی تو وقت کے امام فرماتے ہیں: میری ماں فاطمہ میرے لیے بھی اسوہ حسنہ ہیں(2) اگر حضرت فاطمہ ع کے بچپن کی بات کی جائے تو آپ کا بچپن اپنے والد کو اس پست ماحول میں دیکھتے گزرا جو کبھی پیغام توحید کو پہچانے، رحلت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد درپیش تھا، اس کم سنی کی عمر میں کبھی اپنے بابا کے سر اقدس پر اشاعت حق کے جرم میں کوڑا کرکٹ کے پھینکے جانے کا سنتی تو کبھی اپنے بابا کے جسم کو پتھروں سے لہولہان دیکھتیں، لیکن ایسے پر آشوب ماحول میں نا کبھی ڈریں ناکبھی گھبرائیں بلکہ اس کم سنی کی عمر میں اپنے بابا کی مددگار ثابت ہوئیں اور آپکے ان کمالات اور اوصاف کا نتیجہ یہی تھا کہ رسول اللہ کی موجودگی میں اگر جناب فاطمہ آتیں تو آپ ص انکی تعظیم کی خاطر کھڑے ہوجاتے تھے۔ تو کبھی رسول آپ کے بارے میں فرماتے: فاطمۃ ام ابیہا، فاطمه اپنے باپ کی بھی ماں ہے، جس طرح حضرت فاطمہ ع بچپن کے عالم میں سب کے لیے نمونہ عمل ہیں اُسی طرح آپ ازدواجی زندگی میں بھی سب کے لیے نمونہ عمل ہیں۔

بی بی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا جس طرح کم سنی کے عالم میں اپنے والد بزرگوار کی مددگار ثابت ہوئیں اسی طرح ازدواجی زندگی میں اپنے شوہر کیساتھ تمام اُمور میں معاون ومددگار ثابت ہوئیں.

روایت میں ملتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: بیبی فاطمہ گھریلوں اُمور سر انجام دیتی تھیں.(3) یعنی کھانا پکانا، چکی چلانا، گھر کی صاف ستھرائی، بچوں کی تربیت وغیرہ آپ ان کاموں کو خود انجام دیتی تھیں اور مولا کائنات گھر سے باہر کے کاموں کو سر انجام دیتے تھے۔ آپ دونوں نے اس تقسیم کار کو مکمل طریقہ سے دنیا کے سامنے پیش کردیکھایا۔ بی بی فاطمہ جب گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تو نماز و دعا میں مشغول ہوجاتی تھیں اور آپکی عبادت ایسی عبادت جو عالم انسانیت کے لیے جاودانی مثال ہے۔

روایت میں ملتا ہے کہ: اس امت میں حضرت فاطمہ ع سے بندگی و عبادت میں کوئی بڑھ کر نہیں ہے آپ جب عبادت خداوندی کے لئے کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا تھا۔ ایک اور امام حسین سے روایت ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا: میری والدہ ہر شب جمعہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتیں اور صبح تک نماز و دعا میں مشغول ہوتی تھیں آپ بہت سے لوگوں کا نام لے لے کر انکے لیے دعا کرتیں لیکن اپنے لیے کوئی دعا نا مانگتی تھیں۔(4)

حضرت فاطمہ ع نے اپنے بابا کی امت کی اصلاح کو فقط دعا تک محدود نہیں رکھا تھا بلکہ آپ اپنی عملی زندگی میں عورتوں کو انکی زمینداروں سے آگاہ بھی کرواتی اور انکے مسائل کا حل بھی بتاتی تھیں، المختصر کہ آپ نے اپنی مختصر سی حیات میں انسانیت کو ہمیشہ کے لیے بقاء عطا فرمائی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دین و دنیا کی نعمات ہمیں میسر آجائیں تو ہمیں سیدہ سلام اللہ علیہا کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔

خدا سے دعا گو ہیں کہ پروردگار ہم سب کو سیرت زہراء سلام اللہ علیہا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

حوالہ جات:

1۔بحار الانوار ،ج 15 ،ص 28

2۔طلوع سے غروب تک، ص 27

3۔طلوع سے غروب تک، ص203

4۔طلوع سے غروب تک،ص 256

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .