۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
محسنی

حوزه / اسلامک اسکالر حجت الاسلام محسنی نے حضرت فاطمه (س) کے دفاع کو دین اسلام کا دفاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کا وہ خطبہ جسے آپ نے اہل مدینہ کے درمیان بڑی مشکل اور اشکبار آنکھوں سے پڑھا تھا، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا قلب مطہر اسلام کیلئے مضطرب تھا اور آپ کا دفاع صرف امیر المومنین (ع) کی ولایت کا دفاع نہ تھا، بلکہ اسلام کا بھی دفاع تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سید علی اکبر محسنی نے گزشتہ رات اصفہان میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے منعقدہ مجلس عزا سے خطاب میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ (س) ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام بالخصوص شیعہ اور امیر المومنین (ع) کی ولایت کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا، کہا کہ تاریخی اعتبار سے یہ دفاع قیامت تک باقی رہے گا۔ امام زمان (ع) فرماتے ہیں: میری ماں فاطمه (س)، میرے لئے نمونۂ عمل ہیں۔

حجۃ الاسلام محسنی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خطبہ فدک، اسلام کے مختلف احکام کی وضاحت ہے، کہا کہ دین اسلام کے مختلف احکام کو حضرت زہرا (س) نے اس خطبہ میں بیان کیا ہے اور مدینہ میں حضرت فاطمه زہراء سلام اللہ علیہا نے حقیقی معنوں میں جہاد تبیین کا فریضہ انجام دیا ہے۔

اسلامک اسکالر حجت الاسلام محسنی نے کہا کہ انقلاب ظاہری لباس میں نہیں بلکہ سوچ و فکر میں ہونا چاہئیے، انقلاب کے 40 سالوں کے دوران ایسے لوگ بھی تھے جو انقلابی لباس میں دشمنوں کے اتحادی تھے، لہٰذا حقیقی انقلابی وہ ہے جو مذہب سے سیکھے کہ بطور ایک دیندار اس کا فرض کیا ہے۔ فاطمه زہراء (س) نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے قیام فرمایا تھا۔

انہوں نے بیت المال اور ذمہ داری کے تعلق سے شہداء کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم فاطمه زہراء (س) کے ساتھ امیرالمومنین (ع) کی ولایت تک پہنچ جائیں، لیکن ہماری زندگی، اصولوں اور رہن سہن میں امیرالمومنین (ع) اور اہل بیت (ع) کے طرز عمل اور افکار نہ ہوں تو ہم فاطمی نہیں ہیں، لہٰذا اہل بیت (ع) کے فلسفہ وجودی میں سے ایک فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان جیسا بنیں اور فکری طور پر بھی ان کے ساتھ ہماہنگی ہو۔

حجت‌ الاسلام محسنی نے مزید کہا کہ حضرت زہراء (س) کے ساتھ جو مشابہت پائی جانی چاہئیے ان میں سے ایک مشابہت فکری، آرزو اور دعا ہے، جیسا کہ حضرت زہراء (س) ایک دعا میں فرماتیں ہیں کہ جب تک میں زندہ ہوں، میرا وجود خیر و برکت پر مشتمل رہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی حضرت زہراء (س) کی زندگی کے مشابہ ہو تو ہماری زندگیوں میں بھی خیر کی لہر دوڑنی چاہیئے اور خیر کا مطلب منٹوں میں انجام دیئے جانے والے بہترین، درست ترین، تیز ترین اور دیرپا عمل ہے اور خدا نیز اس سے راضی ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .