۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
شیعہ علماء کونسل پاکستان کانفرنس

حوزہ/ مرکزی نائب صدر شیعہ علماءکونسل پاکستان: عوام شرپسندوں کے مکروہ چہروںکو پہچان چکے ،شیعہ قیادت کو اعتماد میں لئے بغیرکوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی، شیعہ صحابہ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتے ،لیکن اہل بیت اطہارؑکے دشمنوں کو تسلیم نہیں کرتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/شیعہ علماءکونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے واضح کیا ہے کہ متنازعہ فوجداری بل کا مقصد ملک میں انتشار ،مذہبی منافرت ،فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانے کے ساتھ شیعہ کے مذہبی حقوق کو سلب کرنے کی مذموم کوشش ہے۔جسے ان شاءاللہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

اس حوالے سے قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی، وفاق المدارس الشیعہ کے صدر آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی اور مفسر قرآن علامہ الشیخ محسن علی نجفی کا مشترکہ بیان ہماری پالیسی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متنازعہ بل کی منظوری استحکام پاکستان کے خلاف ہے ۔ہم خود ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں اور جمہوری عوامی جدوجہد سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔

لیکن تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور علاقائی جماعتیں جو شیعہ عوام کے ووٹ بھی لیتی ہیں ، متنازعہ قانون سازی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ ہم وزیر اعظم، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ ،چیف جسٹس اور آرمی چیف سے بھی متنازعہ اور غیر ضروری بل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ مکتب اہل بیت ، اہل سنت کے مقدسات کا احترام کرتااور باہمی احترام پر یقین رکھتا ہے،اور اس حوالے سے شیعہ فقہا و مجتہدین کے فتاویٰ موجود ہیں۔ لیکن مقدس ناموں کی آڑ میں اہل تشیع کودیوار سے لگانے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ یہ ہمارے وجود کا مسئلہ ہے۔ ہم اتحاد بین المسلمین کے تمام فارموں پر نمائندگی رکھتے ہیں۔ لیکن اتحاد کا مطلب ایک مکتبہ فکر کا دوسرے میں ادغام نہیں کہ دوسرے اپنے عقائد ہم پر مسلط کریں۔

اتحاد کا مطلب اپنے عقائد پرقائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ بل قرآن و سنت کے خلاف ہے۔آئین پاکستان کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔اہل بیت کی محبت قرآن و سنت کے مطابق واجب ،اور صحابہ اور امہات المومنین کا احترام ضروری ہے۔متنازعہ بل میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔ متنازعہ بل کالعدم ، تکفیری ،دہشتگرد گروہ کے ہاتھ میں خنجر دینے کے مترادف ہے ۔بل کو پیش کرنے والے ناصبی عناصر ،پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہ کے نظریاتی ساتھی ہیں۔

ان خیالات کا اظہارانہوں نے لاہور پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاق المدارس الشیعہ کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری، علامہ حافظ کاظم رضا نقوی، قاسم علی قاسمی،علامہ امجد علی عابدی،علامہ حسن رضا قمی، علامہ رائے ظفر علی خان،مولانا سید محمدرضا موسوی،لعل مہدی خان،سید اذہان کاظمی ، مولانا صفدر علی ،جعفرعلی شاہ، صغیر عباس ورک ، پروفیسر علمدار بخاری اور دیگربھی موجود تھے۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا پاکستان شیعہ سنی نے مل کر بنایا ۔پھر فرقہ واریت اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لئے اختلافی مسائل کو اجاگر کیا جاتا رہا ۔ لیکن ملک کے امن پسند قائدین نے ملی یکجہتی کونسل اورمتحدہ مجلس عمل کی شکل میں یہاں اتحاد وحدت کے پلیٹ فارم تشکیل دیے۔ جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بہتری پیدا ہوئی لیکن لگتا ہے کہ ملک اور اسلام دشمن عناصر یہ برداشت نہ کرسکے۔تو چوردروازے سے متنازعہ قانون سازی کے ذریعے کچھ شرپسند استعماری عناصر اہل تشیع کو دیوار کے ساتھ لگانے اور اپنا عقیدہ ہم پر مسلط کرنے کی سازشیں کرنے لگے۔ قائد اعظم کو” کافر اعظم“ قرار دینے والے کانگریسی ملاوں کی اولادیں ،ملک میں انتشارپید ا کرکے امن کو تباہ اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی سازش کررہی ہیں۔ ہزاروں معصوم شہریوںکے خون سے آلوددہشت گرد تکفیری گروہ کا سرغنہ تسلیم کر چکا ہے کہ متنازعہ فوجداری بل میں انہوں نے جماعت اسلامی کو استعمال کیا ۔ہمارا سوال جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی ہے کہ مولانا مودودی اور قاضی حسین احمد کی جماعت فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کی سرپرست اور وکیل کب سے ہے؟۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام شرپسندوں کے مکروہ چہروںکو پہچان چکے ہیں۔ ماضی کا متنازعہ شریعت بل ہو،نام نہاد بنیاد اسلام بل یا کچھ اور،شیعہ قیادت کو اعتماد میں لئے بغیرکوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔شیعہ علماءکونسل کے رہنما نے واضح کیا کہ شیعہ صحابہ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہمارے عقائد کا یہ حصہ ہے۔لیکن ہم اہل بیت اطہارؑکے دشمنوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ہم احترام صحابہ اور امہات المومنین کے قائل ہیں۔اور جو قانون پہلے سے موجود ہے ، اس کی جو بھی پوزیشن ہے اس کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔علامہ سبطین سبزواری نے نشاندہی کی کہ دہشت گرد گروہ کی طرف سے گذشتہ کچھ عرصے سے جو مقدمات درج کروائے گئے ان میںتوہین یزید،فیس بک پرپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کا لکھنے، 18 ذو الحجہ کو عید غدیرکی مبارکباد دینے ،کونڈوں کی نیاز کھلانے ،گھر کی دیوار پر”دم دم یا علی علیہ السلام “ لکھنے ،امام حسین علیہ السلام کے قاتل عمر بن سعد پر لعنت کرنے،گھر پر علم لگانے اور دعائے کمیل پڑھانے پر شرمناک ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں۔ یہ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں عقائد پر ہونے والا بدترین اور انوکھا ترین ریاستی سلوک ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے۔

ہم اتحاد بین المسلمین چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی شیعہ کو کسی مسلک میں ضم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ یہ اس کی بھول ہے،ہم بھر پور مزاحمت کریں گے۔ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ کا گھیراو بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے ایسے کئی مذموم اقدامات کا سامنا مختلف آمریتوں کے دور میںبھی دیکھا اور اپنے حقوق کو منوایا۔ہم ارکان سینیٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسے بل کو منظور کرنے کی سازش میں شامل نہ ہوں۔جس سے مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے عقائد کو سلب کیا جاسکے ۔ یہ بل دہشتگردی اور فرقہ واریت کے نئے دروازے کھولے گا۔ پہلے بھی اس ملک میں ہزاروں افراددہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جسے کچھ اسلام اور ملک دشمن عناصردوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔لیکن شیعہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سرکٹوادیا مگر جھکایا نہیں۔ مکتب اہل بیت کی عزت و آبرو کے لئے آئندہ بھی کسی انتہائی اقدا م سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اپنے عقائد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ان شاءاللہ ہم آئندہ بھی ثابت کریں گے کہ اہل بیت کا دشمن ہی ناکام اور نامراد رہے گا۔ہمارا مشورہ ہے کہ صدیوں سے تاریخ میں موجو د اختلافی مسائل کو نہ چھیڑیں، مشترکات کو فروغ دیں۔ہم جان دے سکتے ہیں، مکتب اہل بیت کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ افضل حیدری نے کہا کہ اصحاب ذی وقار کی توہین جائز نہیں، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ہم مقدسات اہل سنت کا احترام کرتے ہیں، بتائیں یزید کس کے مقدسات میں شامل ہے؟ہم شیعہ اس لئے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا’ خلیفہ بلافصل‘ مانتے ہیں اور اہل سنت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہہ کو خلیفہ اول مانتے ہیں، تو دونوں کا صدیوں پرانا عقیدتی اختلاف ہے، دونوں اپنے اپنے عقیدے پر موجود رہیں اپنی رائے کو دوسرے پر مسلط نہ کریں۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کوئی اپنا عقیدہ ہم پر مسلط نہ کرے، اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .