۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 388246
13 فروری 2023 - 21:34
سکندر علی ناصری

حوزه/توہین صحابہ بل کو مولوی چترالی نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تقریبا کچھ عرصہ سے اس پر ہمارے علماء، فضلاء اور اسکالرز بحث کر رہے ہیں اور اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں واقعا آیات اور احادیث نبوی کی روشنی میں جواب دینا اوراس پر قلم اٹھانا ہر صاحب بصیرت مسلمان پر فرض اور ضروری ہے تاکہ آیندہ اس طرح کے متنازعہ بل پیش کرنے سے باز آجائے۔

تحریر: سکندر علی ناصری

حوزه نیوز ایجنسی| توہین صحابہ بل کو مولوی چترالی نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تقریبا کچھ عرصہ سے اس پر ہمارے علماء، فضلاء اور اسکالرز بحث کر رہے ہیں اور اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں واقعا آیات اور احادیث نبوی کی روشنی میں جواب دینا اوراس پر قلم اٹھانا ہر صاحب بصیرت مسلمان پر فرض اور ضروری ہے تاکہ آیندہ اس طرح کے متنازعہ بل پیش کرنے سے باز آجائے۔ جن صحابوں کو آیات قرانی اور آحادیث نبوی کی روشنی میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے ان کا احترام ضروری ، اور واجب ہے اور مسلمات میں سے ہے چونکہ سرکار دو عالم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت حاصل کرنے اور آپ پر ایمان لانے اور آپ صلى الله عليه وأله وسلم کی حیات طیبہ میں پیش آنی والی تمام مشکلات اور سختیوں میں آپ کے ساتھ ہمکاری کرنے اور آپ کی گہربار فرامیں پر عمل کرتے ہوے دنیا سے جانے تک اس پر قائم و دائم رہنےکی بناء پر جو عظمت ، فضیلت اور شرف انہیں حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور کو حاصل نہیں ۔ کسی شک و تردید کے بغیر پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واقعی اور حقیقی اصحاب واجب الاحترام ہیں اس موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوے تیں چار دہایوں قبل ہزار دستاویز کے نام پر تمام مسالک کے زعماء علماء کے زیر نگرانی قانون سازی مکمل ہوچکی ہے لیکن آپ قارین کے اذہان کو تیں سال قبل کے ایک واقعے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی جان بوجھ کر وطن عزیز پاکستان میں ( علیہم السلام یا رضی اللہ عنہم ) کا مسئلہ کھڑا کیا ۔ جان بوجھ کر اس بحث کو چھیڑا جس کے نتیجے میں سارے علماء، اسکالرز اور مولوی سب اسی موضوع کے پیچھے پڑے رہیں اور اس پر دھوان دار تقاریر کیں، خطبے دیے ، مقالے لکھے اور کالمز بھی لکھے بڑے چھوٹے سب اسی ایک موضوع کو کوسنے لگے ایک دو ہفتے کے بعد دیکھا پورا ملک پہلی حالات پر کچھ اس طرح پلٹا کہ گویا سرے سے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی طرح اس وقت پاکستان میں توہین صحابہ بل پیش کرنے پر یہی سب کچھ تکرار ہو رہا ہے در حقیقت یہ دونوں موضوعات دینی اعتبار سے بہت ہی حساس موضوعات میں سے ہیں ان موضوعات پر اھل تشیع بردران کی حساسیت دوسروں کی نسبت میں ذیادہ ہے وہ اس پر جان دینگے لیکن کمپورمائز نہیں کرینگے لہذا کچھ دشمن عناصر ان موضوعات کو چھیڑتے ہی اس لیے کہ عوام، خصوصا خواص کو کسی خاص دینی حساس مسئلہ میں الجھا کر پس پردہ اپنا اصلی اور حقیقی مقصد اور ھدف پورا کریں اور خواص اور عوام کی توجہ اس اہم سیاسی مسئلہ کی جانب مبذول نہ ہوں جس کی خاطر یہ کھیل کھیلے جا رہے ہیں یعنی یہ چیزیں ان کی نگاہ میں کمزوری شمار ہوتی ہیں اور ضرورت کے مواقع پر ان چیزوں سے سیاستدان حضرات استفادہ کرتے ییں ۔اگر واضح الفاظ میں کہوں تو یہ ایک سیاسی کھیل ہے دشمن کی سازش ہے کہ اس میں جن لوگوں سے خطرہ محسوس ہوتاہے انہیں کسی نہ کسی طرح کھیل کے میدان میں اتارتے ہیں اور ایک مصنوعی مسئلہ کو اچھالتے ہیں جو حقیقت میں دینی ، مذھبی حساس مسئلہ ہوتا ہے اور مذھبی لوگ اسی میں الجھتے ہیں جب وہ ٹھیگ سے اس کھیل میں کودتے ہیں تو انہیں دوسرے مسائل کا درست ادراک نہیں رہتاہے دوسرے مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جاتی ہے سیاسی لوگ اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے ھدف کو باآسانی پورا کرتے ہیں لوگوں کو پتہ تک نہیں چلنے دیتے ہیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے؟ اس پر شاھد یہ ہے کہ تیں چار سال قبل کی بات ہے کہ اھل بیت پیامبر (ص) کے نام کے ساتھ علیہم السلام لکھیں یا رضی اللہ تعالی عنہم لکھیں کی بحث چھیڑی اس پر پورے ملک میں بہت شور شرابہ ہوا اگر آپ کو اس وقت کی عالمی سیاست پر کچھ معلومات ہوں تو اس وقت FATFکے اعتبار سے وطن عزیز پاکستان ایک سیاسی بحران کا شکار تھا پاکستان کو اس کی مد میں ملنے والے عالمی فنڈز اور مالی تعاون بند ہونے کا خدشہ تھا پاکستان پر اس وقت بیرونی بہت ذیادہ دباؤ بھی تھا ۔جہان تک مجھے علم ہے کہ پاکستان اس وقت گرے لسٹ میں شامل ہو چکا تھا مالی تعاون کی بلکل توقع نہیں تھی اس وقت ملک دو راہے پر کھڑا تھا بیرونی شرائط کو قبول کر کے مالی امداد حاصل کریں یا ان کے شرائط کو ٹھکرائیں ان دو کے علاوہ کوئی تیسرا راہ حل نہیں تھا دوسرا آپشن پاکستان کے مفاد میں بلکل نہیں تھا جو راہ حل بچتا تھا وہی پہلا آپشن تھا ان کی تمام شرائط کو من عن قبول کریں۔ دوسری طرف ان شرائط کو مانے میں مشکل یہ تھی کہ اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت تھی جب قانون سازی کا مرحلہ ایا تو یقینا اس بات کا علم عوام اور خواص کو ہونا تھا تو یہ لوگ اس کو کامیاب نہیں ہونے دینےتھے ایسے میں کریں تو سیاستدان کیا کریں؟ ایسے مواقع پر سیاسی لوگ مذھبی کوئی حساس مسئلہ کو اٹھاتے ہیں تاکہ مذھبی لوگ اسی کشمکش میں پڑے رہیں اور اسی کی کھینچا تانی میں سرگرم ہوں اور یہ سیاسی حضرات اپنا مقصد پورا کرسکیں اور ہوا بھی ایسا اس وقت پاکستان کو FATFکا مسئلہ تھا

یعنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تنظیم کی جانب سے اس وقت پاکستان کو 35 اھداف پر عمل در امد کرنے کے لیے کہا گیا تھا پاکستان کو ان 35 اھداف پر عمل در آمد کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت تھی قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہوں تو عوام اور خواص کو معلوم ہونا یقینی تھا اور اس کے دور رس بھیانگ نتائج سے بھی آگاہ تھے ان وجوہات کی بناء پر لوگ اس کی مخالفت کرنی تھی اور اسمبلی سے منظور نہیں ہونے دینا تھا کیوں کہ ان میں اکثر چیزیں دینی اور مذھبی اہم امور اور مسائل سے مربوط تھیں مثلا مساجد مدارس کو فنڈینگ کہاں سے ہورہی ہیں اور ان کے مالی منابع کہاں ہیں اور ان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا وغیرہ شامل تھے لہذا ان سے اگرعوام باخبر ہوجاتے تو ایک ھنگامہ کھڑا ہونا یقینی تھا اور کام بھی نہیں ہونا تھا لہذا اسٹبلشمینٹ نے رضی اللہ عنہم یا سلام اللہ علیہم کی بحث چھیڑی اور ہوا یوں کہ چھوٹے بڑے سب اسی پر بحث کرتے رہے اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین نے ایف اے ٹی ایف بل کو کسی مزاحمت کے بغیر قومی دونوں ایوانوں ( زرین اور بالا)سے متفقہ طور پر منظور کروایا اور کسی کو اس کی خبر تک ہونے نہیں دی اس کے نتیجے میں ایک ہفتے کے بعد پاکستان کو گرے لیسٹ سے نکال دیا ایف اے ٹی ایف ہمارے دین اور مذھب کے لیے بہت ہی خطرناک سازش ہے اسی بناء پر جمھوری اسلامی ایران نے اس کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

اب آییں ہمارے اصلی موضوع کی طرف آج کل ملک میں توہین صحابہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے پر گرما گرم بحث جاری ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک اس جیسا اہم موضوع کو جان بوجھ کر تعطل کا شکار بنایا ہے کوئی مسلمان صحابہ کرام کی توہین کی کیا سوچ بھی سکتا ہے؟اس وقت تمام مسلم مذاھب کے سارے زعماء علماء بیٹھ کر احادیث اور آیات قرانی کی روشنی میں صحابہ کوں ہیں اور صحابہ کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والے کوں ہیں تعیین اور تشخیص کرنی کی شدید ضرورت ہے لیکن اس دینی حساس مسئلے کو کیوں ہاتھ لگایا اور اھل تشیع بردران کے دینی احساسات سے کیوں کھیل کھیلےجا رہے ہیں؟ اور اس کو چھیڑنے کا کیا فائدہ ہے؟ پس پردہ کیا اھداف اور عوامل ہیں؟ جس نے یہ بل پیش کیا ہے واقعا صحابہ کرام سے محبت ہونے ،صحابہ کرام سے عشق ہونے کی بناپر پیش کیاہے؟ مجھے یقیں ہے کہ اصلا ایسی کوئی بات نہیں، حقیقت کچھ اور ہے نہ اس کو صحابے سے محبت ہے نہ ان سے عشق ہے یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کا ایک خطرناک حصہ ہے جسے عوام کو خصوصا خواص کو بے خبر رکھا گیا ہے اس متنازعہ بل کو پیش کرنے والا اسلام دشمن فلسطین سے غدار شخص ہے اس کو نہ صحابے کرام سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی سلف صالحین سے کوئی سروکار ہے بلکہ اس کو اسرائیل اور اس کے ہمنواوں سے پیار ہے اس کی ہاں اس کی عزت ہے یہ سب کھیل انکے منصوبوں کو علاقے میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازع کے حل کے لیے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹڑمپ کے دور میں دو مملکت کا نظریہ پیش کیا اور اسرائیل نے کچھ عرب ممالک اور کچھ فلسطینی سیاسی پارٹیز کو اس کے لیے ہمنوا بنانے کی سعی کی اس سلسلے میں کچھ عرب ممالک اور خود فلسطین کے کچھ سیاسی پارٹیز نے ساتھ دیا اس دوران حماس تذب ذب کا شکار ہوا اس کی قیادت میں ایک وفد رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران سے ملاقات کی اور اس موضوع کے حوالے سے گفتگو کی تو رہبر معظم نے اس نظریہ کو خالص دھوکہ فریب سے تعبیر کی اور اس کو قبول کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا لیکن کچھ دشمن عناصر وطن عزیز پاکستان کو اس نظریہ کے لیے ہمنوا اور حامی بنانے کی سازش میں مصروف ہیں ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان نیازی نے بھی اس نظریہ کو مانے سے انکار کیا تھا لیکن بد قسمتی سے چند ہفتے قبل اقوام متحده کے سلامتی کونسل اجلاس میں ہمارے نمایندے نے اسرائیل کے حق میں جو بیان دیا ہے وہ وطن عزیز پاکستان کے لیے اچھے نتائج کے حامل نہیں ہیں اور اس بیان کو ڈان نیوز پیپر نے اپنے اداریہ میں چھپوایا ہے جس میں ہمارے نمایندہ نے کہا ہے

In this regard Pakistan had also recently stated at the UN Security Council that the two-state formula was the " only viable solution"to the Arab-Israeli dispute

یعنی" پاکستان نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں بیان دیا کہ عرب اسرائیل تنازع کا قابل حل راہ صرف دو مملکت کا فرمولا ہے "اگر اس فرمولے کو مد نظر رکھیں تو فلسطین کے مظلوم عوام کی قربانی ضائع ہوجائی گی ان کی اب تک کی جد و جھد رائیگان ہوگی حکومت اس اہم مسئلہ سے عوام اور خواص کی توجہ ہٹانے کے لیے اس توہیں صحابہ بل کو پیش کیا ہے تاکہ ایک تیر دو ھدف کے مصداق بنے لیکن یاد رکھیں عوام ان دونوں سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .