حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ زوم کے ذریعے جنت البقیع کے روضوں کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے کے لیے البقیع آرگنائزیشن کی جانب سے مولانا محبوب مہدی عابدی نجفی کی صدارت میں بین المسالک و بین الاقوامی تاریخی کانفرنس برگزار کی گئی جس میں نہایت دلکش نظامت مولانا علی عباس وفا نے کی اور اپنے مخصوص مقناطیسی انداز سے کانفرنس کو اور پر رونق بنا دیا ۔
البقیع آرگنائزیشن کے روح رواں ، بزرگ عالم دین اور مفسر قرآن مولانا محبوب مہدی عابدی نے اپنی صدارتی تقریر میں پورے عالم انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت البقیع کی تعمیر نو کا مطالبہ یہ صرف اہل تشیع یا اہل سنت والجماعت کا نہیں ہے بلکہ یہ انسانی ثقافتی وراثت سے مربوط ہے اس لیے ہمارا مطالبہ دنیا کے تمام انصاف پسند انسانوں سے ہے کہ وہ جنت البقیع کی تعمیر نو میں ان لوگوں کا پوری طاقت و قوت سے ساتھ دیں جو اس پاکیزہ مشن کے لیے تحریک چلا رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جنت البقیع کی باز سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں یعنی بقیع میں جس جگہ روضے تھے اسی جگہ روضوں کی تعمیر نو کا مطالبہ ہے الگ سے کسی تعمیر کی ڈیمانڈ نہیں کی جا رہی ہے ۔
عزت مآب عالی جناب مولانا عبید اللہ خان اعظمی اھل سنت والجماعت کے مشہور و معروف عالم دین جنہوں نے اٹھارہ سال بھارت کی راجیہ سبھا میں بہترین نمائندگی کی اور اس وقت اھلبیت علیھم السلام کے فضائل پورے کر و فر سے بقدر وسع بیان فرما رہے ہیں آپ نے اپنی جاذب و جالب تقریر میں فرمایا کہ دنیا کی ہر قوم اپنی ثقافتی وراثت کو بچانے کے لیے جان و دل سے کوشش کرتی ہے لیکن یہ سعودی کی بیہودی حکومت ہے جس نے جنت البقیع میں بلڈوزر چلا کر وہاں کے مقدس مزارات کو شہید کر دیا یہ بلڈوزر آل سعود نے اصل میں ہمارے سینوں پر چلائے ہیں جنت البقیع کے روضوں کے انہدام کے بعد حکومت ہند نے ایک ڈیلیگیشن گاندھی جی کی جانب سے سعودی عرب بھیجا تھا جس کی سربراہی مولانا محمد علی جوہر کر رہے تھے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر نہ ہو سکا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن بقیع میں تعمیر نو کا سلسلہ ضرور شروع ہوگا ۔
اپنی شعلہ بیان خطابت سے لاکھوں عاشقانِ رسول و آل رسول کے دلوں میں راج کرنے والے مایہ ناز خطیب نگین بنگال حضرت علامہ شبیر علی وارثی نے اپنی پر مغز تقریر میں فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو اپنے مسلکی اختلاف کو دور رکھ کر اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے اور جنت البقیع کی تعمیر نو کے لیے یک زبان ہو کر آواز بلند کرنا چاہیے ہم جب اپنا مکان بناتے ہیں تو اس کے لیے پوری طاقت و قوت جھونک دیتے ہیں یہ تو خانوادہ عصمت و طہارت کے روضے ہیں۔ میں تمام مسلمانوں سے خاص کر درگاہوں کے تمام خدام سے جو سید بھی ہیں گزارش کر رہا ہوں کہ وہ اس مسئلے میں خط مقدم پر آکر پر زور انداز میں صدائے احتجاج بلند کریں کیونکہ سعودی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جنت البقیع سے محبت صرف شیعوں کو ہے ۔میں مولانا عبید اللہ خاں اعظمی صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس اس سلسلے میں آگے آئیں آپ ایک عالمی شخصیت کے مالک ہیں ھم لوگ آپ کے سپاہی بن کر اس سلسلے میں آپ کے ساتھ ہیں آپ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ آپ لاکھوں لوگوں کو جمع کر سکتے ہیں ۔
شہر کانپور سے ایک صوفی عالم دین، نائب سجادہ نشین اور متعدد خانقاہوں کے سرپرست و ذمہ دار اور ہزاروں تاریک دلوں کو مودت اہلبیت کی شمع سے روشن و منور کرنے والے مولانا معین الدین چشتی نے دل کی زبان سے بولتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں دو اھم خانقاہیں ہیں ایک اجمیر شریف اور دوسری بریلی شریف اگر یہ دونوں خانقاہیں متحد ہو کر جنت البقیع کی تعمیر کے لیے احتجاج کریں تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اس پرچم تلے جمع کرکے سعودی حکومت پر زبردست دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ سجادہ نشین کا مطلب ہوتا ہے مصلے پر بیٹھنے والے اور جب بھی مصلے اور جانماز کا لفظ سامنے آئے گا تو أمام سجاد علیہ السلام کا نام نامی ہی سامنے آئے گا اور یہ بات تمام سجادہ نشینوں کو جاننا چاہیے کہ بقیع میں جن روضوں کو منہدم کیا گیا ہے ان میں امام زین العابدین علیہ السلام کا روضہ بھی شامل ہے
اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر و مداح اھلبیت محافل و مقاصدے کی زینت ، کامیاب ناظم اور اردو کے معتبر ادیب جناب حلیم زیدی نے نثر اور نظم دونوں میں اپنے پاکیزہ جذبات کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ ان لوگوں کی دعا ضرور باب استجابت سے ٹکرائے گی جو جنت البقیع کی تعمیر نو کے لیے شب و روز دعا کر رہے ہیں۔ چوں کہ ابھی چند روز قبل محسنہ اسلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کی تاریخ گزری ہے اس لیے آپ نے اس عظیم خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ ہے کتنی بلندی پر ایمان خدیجہ کا/ پڑھتا ہے فصیدہ خود قرآن قصیدہ کا/ دی فاطمہ زہرا سی بیٹی جو پیمبر کو اسلام کے اوپر ہے احسان خدیجہ کا۔
بھارت سرکار کے ایک بڑی کمپنی اور این جی سی کے سابق لیگل ایڈوائزر عالی جناب عزت مآب سید غلام مرتضیٰ رضوی نے (جو ایک اچھے محقق بھی ہیں اور بہترین اوریٹر بھی) اپنی نہایت عالمانہ اور محققانہ تقریر میں فرمایا کہ جنت البقیع یقینا اسلامی وراثت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ھیسٹوریکل ہیریٹیج بھی ہے یونیسکو کا کہنا ہے کہ ثقافتی وراثت کی حفاظت ہر حال میں ہونا چاہیے ثقافتی ورثہ ہمیں زندہ رکھتا ہے ۔ سعودی حکومت والے اسلامی ہیریٹیج کے مخالف تو ہیں لیکن جن ثقافتی ورثوں اور آثار قدیمہ کا تعلق ان کے خاندان سے ہے وہ پوری طرح محفوظ ہیں میں ایک جملے میں اپنی تقریر کا نچوڑ یوں بیان کر سکتا ہوں کہ جنت البقیع کے روضوں کا انہدام ثقافتی قتل عام ہے ۔
سب سے آخر میں حسب معمول شہر پونا سے مولانا اسلم رضوی نے عالم انسانیت و عالم اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آٹھ شوال کو آنے میں اب پچیس دن سے بھی کم بچے ہیں اس لیے ہر شخص سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ پوری دنیا میں چاھے وہ شہر ہو یا دیہات ، لوگوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ سب مل کر پوری طاقت و قوت کے ساتھ اپنے اپنے ملک کے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فلک شگاف نعروں کے ساتھ تاریخ ساز استقبال کریں تاکہ جب میدان محشر میں مدفونین بقیع کا سامنا ہو اور وہ سوال کر لیں کہ تم نے بقیع میں ہماری اجڑی ہوئی قبروں کے لیے کس طرح احتجاج کیا تھا تو ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔ اس لیے آٹھ شوال کو جب احتجاجی مظاہرے ہوں تو وہی گھر میں رہے جو بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے سڑک پر نہ نکل سکتا ہو ۔
مولانا اسلم رضوی کی کے دعائیہ کلمات پر یہ کانفرنس اختتامی مرحلے تک پہنچی۔ یہ انٹرنیشنل کانفرنس جو البقیع آرگنائزیشن کی جانب سے برگزار کی گئی تھی ایس این این چینل ، امام عصر آفیشیل اورنگ آباد ، یو ٹی وی نیٹ ورک حیدرآباد ، حیدر ٹی وی کینیڈا سے براہ راست نشر کی گئی ۔