۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 389759
16 اپریل 2023 - 01:44
مولانا منظور عالم جعفری

حوزہ/ خودسازی کی پہلی منزل یہ ہے کہ انسان اس راستے کا انتخاب کرے جو رضائے الہی کی طرف جا رہا ہے نہ غضب الہی کی طرف، جو بہشت و جنت کا راستہ ہے نہ دوزخ و جہنم کا۔ یا دوسرے لفظوں میں جو اس کی فطرت کا راستہ ہے یا شیطنت کا۔

تحریر: مولانا سید منظور عالم جعفری سرسوی

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔

ترجمہ: ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں لہٰذا جو شخص اس مہینہ میں حاضر رہے اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے. خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا. اور اتنے ہی دن کا حکم اس لئے ہے کہ تم عدد پورے کردو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اقرار کرو اور شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ

سورہ بقرہ آیت 185

(١) عظمت ماہ رمضان المبارک

ماہ رمضان تنہا ایک ایسا مہینہ ہے جس کا نام قرآن مجید میں آیا ہے ۔

اس مبارک ماہ میں جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتاہے جنت کو مزین کیا جاتا ہے اور نیک کاموں اور عبادتوں کی جزا دوگنی ہو جاتی ہے۔

رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے کہ جس میں نیک کاموں کی جزا دوبرابر ہو جاتی ہے اور گناہ محو ہو جاتے ہیں۔ ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان توبہ اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان جہنم سے رہائی اور جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔

پس اے لوگو! اس مہینہ میں ہر برے اور حرام کام سے دوری اختیار کرو۔ اور قرآن کی کثرت سے تلاوت کرو۔ اور اس کے تمام اوقات کو اللہ کی یاد میں گزارو۔ مبادا یہ مہینہ بھی تمہارے نزدیک دوسرے مہینوں کی طرح رہے اس لیے کہ یہ دوسرے مہینوں پر برتری اور فوقیت رکھتا ہے۔

حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: "آپ پر لازمی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں کثرت سے دعا اور استغفار کریں اس لیے کہ دعا بلاؤں کو ٹال دیتی ہے۔ اور استغفار گناہوں کو محو کر دیتا ہے ."

روایت میں ہے: «إنَّ للهِ مائِدَةً» خداوندعالم کا ایک دسترخوان «عَلَیها مَا لاٰ عَینٌ رَأَتْ»، اس دسترخوان پر جو چیزیں ہیں ان کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے «وَ لا َ اُذُنٌ سَمِعَتْ» اور نہ کسی کان نے سنا ہے. «وَلا خَطَرَ عَلَی قَلبٍ بَشَرٍ» اور نہ ہی ذہن انسانی میں اس کا تصور آیا ہے، «لا یَقْعُدُ عَلَیهَا إلاَّ الصّائِمُونَ»، اس دسترخوان پر روزہ داروں کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھ سکتا ہے.

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لَوْ یَعْلَمُ الْعَبْدُ مَا فِی رَمَضَانَ لَوَدَّ أَنْ یَکُونَ رَمَضَانُ السَّنَةَ» اگر بندہ ماہ رمضان کی فضیلت اور عظمت کو جان لے تو وہ چاہے گا کہ پورے سال رمضان ہی رہے.

(٢) ماہ رمضان کتب سماوی کے نزول کا مہینہ ہے

اس مہینہ کی ٦ تاریخ کو توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اور ١٢ رمضان المبارک کو انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اور ١٨ رمضان المبارک کو زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اور ٢٣ رمضان المبارک کو قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔

(٣) رمضان المبارک تربیتی سال کی ابتدا ہے۔

ہم دنیا میں مختلف قسم کے سالوں کے کیلنڈر رکھتے ہیں جیسا کہ قمری سال کا کلینڈر ، میلادی سال کا کلینڈر، اقتصادی سال کا کلینڈر، شمسی سال کا کلینڈر اسی طرح انسانی تربیت کے سال کا کلینڈر بلکہ انسان کی تقدیر کے سال کا کلینڈر ماہ رمضان المبارک ہے، جیسا کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

*سال کی اساس اور بنیاد شبِ قدر ہے اور اس میں ایک سال سے دوسرے سال تک جو کچھ ہوتا ہے، لکھا جاتا ہے۔*

*📚وسائل الشيعه، ج ۷، ص ۲۵۸، ح ۸*

(٤) ماہ رمضان المبارک زندگی کے اوقات کو مرتب اور منظم کرنے کا مہینہ ہے

مولاۓ کائنات علیہ السلام امام حسنین علیہما السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: أُوصِيكُمَا، وَجَمِيعَ وَلَدِي وَأَهْلِي وَمَنْ بَلَغَهُ كِتَابِي، بِتَقْوَى اللهِ، وَنَظْمِ أَمْرِكُمْ ، میں تم دونوں کو اور اپنے تمام اہل وعیال کو اور جن تک یہ میرا پیغام پہونچے وصیت کرتا ہوں کہ تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو اور اپنے کاموں کو منظم کرو

ماہ رمضان میں انسان اپنے روز مرہ کے امور کی مکمل پریکٹس کرلیتا ہے کس وقت اٹھنا ہے کب کھانا ہے کب عبادت کرنا ہے ۔

(٥) ماہ رمضان المبارک ارادوں کو مستحکم کرنے کا مہینہ ہے ۔

انسان اس مہینہ میں مبطلات روزہ سے پرہیز کرکے اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی عادت ڈالتا ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے ارادوں کو اور نفس کو اتنا مستحکم کرلے کہ نہ کسی کی تعریف اور نہ ہی کسی کی مذمت اس کے ارادوں اور گناہ سے بچنے کی عادت کو خراب کرسکیں۔ روایت میں ہے کہ اگر کوئی روزہ دار سے بدکلامی کرے اور وہ یہ کہکر خاموش ہوجائے کہ جا میں روزہ سے ہوں در حقیقت یہ ایک نور ہے جو اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ اور رحمت خدا سے نزدیک کرتا ہے۔

(٦) ماہ رمضان وہ مہینہ جس میں شیطان مقید ہو جاتا ہے ۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شیطان کو ایک کمرہ میں بند کردیا جاتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو لوگ ماہ رمضان میں گناہ نہ کیا کرتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان واجبات و مستحبات پر ماہ رمضان میں عمل کرتا ہے اور محرمات اور مکروہات سے اجتناب کرتا ہے جس کی وجہ سے شیطان اس کے قریب نہیں جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد پروردگار ہے: وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ

اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا ۔

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ

اور یہ شیاطین ان لوگوں کو راستہ سے روکتے رہتے ہیں اور یہ یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں۔ سورہ زخرف آیت ٣٦ -٣٧

مولائے کائنات فرماتے ہیں: شیطان پہلے انسان کو مستحبات کو ترک کرنے پر اکساتا ہے اور پھر جب اس کی عادت پڑ جاتی تو اس کو مکروہات کے انجام دینے کی ترغیب دلاتا ہے پھر واجبات کو ترک کراتا ہے اور محرمات کو انجام دینے پر راضی کرتا ہے ۔

(٧) ماہ رمضان خود سازی اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے ۔

خود سازی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کوایسا بدلے جیسا خدا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا جی تکبر اور خود خواہی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اپنے نفس کی ایسی تربیت کریں کہ تکبر اور خود خواہی سے نجات پاجائیں اور تواضع اور انکساری ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ اگر ہمارے اندر بخل اور کنجوسی پائی جاتی ہے تو اس مذموم صفت کو ختم کر کے اس کی جگہ کرامت اور بخشش کی صفت پیدا کریں۔

خلاصہ کلام یہ کہ صفات سلبیہ اور رذیلہ کو اپنے نفس و روح سے دور کر کے صفات ثبوتیہ اور حسنہ کا لباس اپنے وجود کو پہنائیں۔

اور خود سازی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو بھول کر خدا کو اپنا مالک واقعی سمجھے تا کہ خدا کو پہچان سکے اور اس کی عبودیت کا حق ادا کر سکے۔ اور جو چیز مرضی الٰہی کے مخالف ہو اس سے دور رہے۔ خود سازی اور نفسانی ہواو ہوس سے کنارہ کشی تمام کمالات اور فضائل انسانی کا منشا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مادی تعلقات سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور دنیاکے تجملات میں غرق نہ ہوا تو یقینا خدا کی طرف متوجہ رہے گا اور تکامل کی طرف گامزن ہو گا۔ اور کامیابی اور کامرانی کے بلند ترین مقام پر فائزہوگا۔

اللہ نے اس اشرف المخلوقات میں اپنی روح قرار دے کر تمام کمالات اور خوبیوں کو حاصل کرنے کا مستعد بنا دیا۔ اور اس کے بعد ارادے کی عظیم نعمت سے نواز کر انتخاب کا اختیار دے دیا۔ جب انتخاب کا اختیار دیا تو اچھے اور برے کی پہچان بھی دے دی، سیدھا اور غلط راستہ بھی دکھلا دیا اور دونوں راستوں کا انجام بھی واضح کر دیا۔

ارشادِ رب العزت ہو رہا ہے: إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا

بیشک ہم نے کافرین کے لئے زنجیریں - طوق اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کا انتظام کیا ہے۔ سورہ انسان (دہر) آیت ٣-٤

خودسازی کی پہلی منزل یہ ہے کہ انسان اس راستے کا انتخاب کرے جو رضائے الہی کی طرف جا رہا ہے نہ غضب الہی کی طرف، جو بہشت و جنت کا راستہ ہے نہ دوزخ و جہنم کا۔ یا دوسرے لفظوں میں جو اس کی فطرت کا راستہ ہے یا شیطنت کا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «أُعْطِیَتْ أُمَّتِی فِی شَهْرِ رَمَضَانَ خَمْساً لَمْ یُعْطَهُنَّ أُمَّةُ نَبِیٍّ قَبْلِی»؛ خداوندعالم نے میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ ایسی چیزیں دی ہیں جو اس سے قبل کسی امت کو نہیں دی گئیں ۔

١- :«أمَّا وَاحِدَةٌ»، ان میں سے پہلی «فَإِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ»،جب ماہ رمضان کی جب پہلی شب آتی ہے «نَظَرَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَیْهِمْ وَ مَنْ نَظَرَ اللهُ إِلَیْهِ لَمْ یُعَذَّبْهُ أَبَدا»، خدا ان پر اپنی نظر رحمت کرے گا اورخدا جس پر نظر کرم کرلے وہ ہمیشہ کے لیے عذاب الٰہی سے محفوظ رہتا ہے ۔

٢- دوسرے «الْمَلاَئِکَةَ یَسْتَغْفِرُونَ لَهُمْ فِی لَیْلِهِمْ وَ نَهَارِهِمْ»، ملائکہ راتوں دن ان کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔

٣- تیسرے «یَأْمُرُ جَنَّتَهُ» جنت کو حکم دیتاہے «تَزَیَّنِی لِعِبَادِی»؛ میرے بندوں کے لیے مزین ہوجا۔

٤- چوتھے «فَإِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ»؛ جب ماہ رمضان کی آخری تاریخ آتی ہے «غَفَرَ لَهُمْ جَمِیعاً»، خدا ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ کسی نے بلند ہوکر کہا: کیا آخر رات سے مراد شب قدر ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، شب عید؛ کیونکہ اسی دن روزہ داروں کو ان کے روزوں کا اجر دیا جاتا ہے.

٥- پانچویں «فان خلوف افواههم حين يمسون عند الله أطيب من ريح المسك » شام کے وقت کی ان کے منھ کی بدبو خدا کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی پیاری ہوتی ہے ۔

لیکن ان پانچ انعامات سے ہر روزہ دار کو نہیں نوازا جائے گا بلکہ ان‌انعامات کا مستحق صرف وہ روزہ دار ہی ہوں گے جن کے لیے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) فرمایا: «اِنَّ مَن تَمَسَّکَ فی شَهرِ رَمَضانَ بِسِتً خِصَالٍ»، بیشک جو روزہ دار ماہ رمضان میں چھ چیزوں سے متمسک رہے گا «غَفَرَاللهُ لَهُ ذُنوبَهُ»، خداوندعالم اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔

وہ چھ چیزیں یہ ہیں:

1- «أن یَحفَظَ دینَهُ»، اپنے دین کی حفاظت کرے۔

2- «وَ یَصُونَ نَفسَه»؛ اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے اور گناہ سے بچے۔

3- «وَ یَصِلَ رَحِمَهُ»؛ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔

4- «وَ لا یُؤذِیَ جَارَهُ»؛ اپنے پڑوسیوں کو اذیت نہ دے۔

5- «یَرعَی إخْوانَهُ»؛ لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے۔

6- «وَ یَخزُنَ لِسَانَهُ»؛ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھے ۔

لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ روز عید ہم ہدیہ اور تحفہ الہی سے محروم نہ ہوجائیں ۔

روایت میں ہے کہ رسول خدا (ص) نے ماہ رمضان سے پہلے ایک خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا:

اے لوگو! جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا: یا محمد! جو آپ کا نام مبارک سنے اور آپ پر درود نہ بھیجے خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے محمد! جو شخص ماہ رمضان کو درک کرے اور خدا کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور دنیا سے گذر جائے ہمیشہ خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے پیغمبر آپ آمین کہیے۔ میں نے بھی آمین کہا۔

خداوند عالم ہم سب کے روزوں، تلاوت قرآن کریم اور طاعات وعبادات کو قبول فرمائے آمین اور طول سال اسی طرح اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .