۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای بہار

حوزہ/ جو بھی اس حالت میں اپنے دن کو شروع کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی کوئی فکر نہ ہو تو، ایسا شخص مسلمان نہیں ہے لہٰذا اسلام میں ایسی گوشہ نشینی جائز نہیں جو دیگر مسلمانوں کے امور سے بے توجہی اور لا پرواہی کا سبب بنے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای نے ہمیشہ علمی،فکری اور ثقافتی امور کوتشنگان عدالت کے سامنے پیش کیا، اور۱۴سال سے لیکرآجتک سعی و تلاش اور کافی کوششیں کیں تاکہ بشرکی خلقت اور اسکے اغراض و مقاصد پرلوگوں کی ہمہ تن  نظر رہ سکے،اسی سبب اس سال ماہ مبارک میں بااحتیاط لوگوں کو ہر لحظہ معارف اسلامی سے سیراب کرنے کی کوششیں کیں،چونکہ ماہ رمضان المبارک اپنے آپ کو برائیوں اور گناہوں سے پاک کرنے ، فضائل و کمالات سے آراستہ ہونے اور رب کریم سے قرب کا ایک بہترین اور مناسب موقع ہے، اس وجہ سے اس فرصت اور موقع سے صحیح اور مکمل استفادہ کرنا ضروری ہے۔

تصویری جھلکیاں:  حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای بہار میں دینی کلاسیز و تقسیم انعامات

حجت الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدرضوی(بانی ادارہ) کی دقت نظر اور اہم اسلوب پر بہت ہی ظریف نکات کی بنیاد پر عبادت پروردگار عالم میں چار چاند لگا، جو مولاناموصوف کی آخرت کا ایک اہم سرمایہ بنا،

پہلا محور: فضائل ماہ رمضان المبارک: اس خطبہ کے شروع میں رسول اکرم (ص) نے مؤمنین کو ماہ رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایھا الناس انہ قد اقبل الیکم شھر اللہ بالبرکۃ و الرحمۃ و المغفرۃ. آپ (ص) نے اس مہینہ کو شہر اللہ (خدا کا مہینہ) کہا ہے ، اگرچہ سارے مہنیے خدا ہی کے مہینے ہیں لیکن چونکہ ماہ رمضان کو ایک خاص شرف و فضیلت حاصل ہے اور اس مہینہ میں خدا سے نزدیک ہونے اور عبودیت و اخلاص کے زیور سے آراستہ ہونے کے تمام تر مواقع فراہم ہوتے ہیں،، اوج فضیلت: رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا: شہر ھو عند اللہ افضل الشہور و ایامہ افضل الایام و لیالیہ افضل اللیالی و ساعاتہ افضل الساعات. یہ مہینہ خدا کے نزدیک سب سے برتر اور بافضلیت مہینہ ہے، اس کے بعد آپ نے ایک بہت اہم بات بیان فرمائی کہ اس مہینے میں مؤمنین کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اور انہیں کرامت الٰہی کا اہل قرار دیا گیا ہے: دعیتم فیہ الیٰ ضیافۃ اللہ و جعلتم فیہ من اھل کرامۃ اللہ. یہ ماہ رمضان المبارک کی سب سے برتر اور بالاتر فضیلت ہے اس لیے کہ ایک کریم صاحب خانہ اپنے مہمانوں کی بطور احسن مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی حاجتوں کو روا کرتا ہے۔ نبی کریم (ص) نے اس بے نظیر مہمان نوازی کے بعض جلووں کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ماہ رمضان میں انسان کی اطاعت و عبادت کے علاوہ اس کے روز مرہ کے غیر اختیاری امور کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان پر ثواب لکھا جاتا ہے۔  انفاسکم فیہ تسبیح و نومکم فیہ عبادۃ نیک اعمال اسی وقت انسان کے معنوی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں کہ جب وہ بارگار خداوندی میں قبول کر لیے جائیں، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اعمال مختلف آفات کی بناء پر شرف قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں، مگر یہ کہ فضل و کرم پروردگار ان کی قبولیت کا باعث بن جائے۔ ماہ رمضان میں یہ فضل و کرم مؤمنین کے شامل حال ہوتا ہے اور ان کے اعمال مقبول بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں: و عملکم فیہ مقبول ماہ رمضان میں خداوند اپنے مہمانوں کی حاجتوں کو بر لاتا ہے اور ان کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے دعائکم فیہ مستجاب.پروردگار نے ہر نیک عمل کے لیے ایک خاص مقدار میں ثواب معین کر رکھا ہے، لیکن ماہ رمضان میں یہ ثواب کئی گنا ہو جاتے ہیں۔ نبی اکرم اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:، پروردگار اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں ایک واجبی نماز ادا کرے گا خداوند اسے ستر (70) واجبی نمازوں کا ثواب عطا فرمائے گا اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا، تو اسے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب دے گا۔ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے: ایھا الناس ان ابواب الجنان فی الشھر مفتحۃ و ابواب النیران مغلقۃ و الشیاطین مغلولۃ۔

مدیرحوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای ،حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سبط حیدر نے کہا کہ لوگوں نے شرایط کے ساتھ تمام عبادتیں بہت ہی شان وشوکت کے ساتھ انجام دیں۔

مولانا موصوف نے کہا کہ لوگوں نے علمی مطالب پہ بھی کافی توجہ دی،کسی نے دوسرامحور اعمال ماہ مبارک کے سلسلے سے بیان کیاتوسامع کی حیثیت سے عید الفطرکے جشن میں اہم انعام سے نوازاگیا،آیئے اسے بھی ملاحظہ فرمایں:

دوسرا محور:اعمال ماہ رمضان المبارک: اگرچہ ماہ رمضان میں تمام انسانوں کو خدائی مہمانی کی دعوت دی گئی پس میزبان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی اچھی طرح مہمان نوازی کرے اسی طرح مہمانوں پر بھی میزبان کے سلسلہ میں کچھ ذمہ داریاں ہیں کہ ان کا برتاؤ بھی میزبان کے شایان شان ہوں۔ اس مہینے میں روزہ داروں کے حالات، عادات و اطوار اور رفتار و کردار دوسرے مہینوں سے الگ ہوں اور انہیں مندرجہ ذیل اعمال کو مزید اخلاص اور توجہ کے ساتھ انجام دینا چاہیے: تلاوت قرآن مجید؎:رسول خدا (ص)نے حکم روزہ کے بعد جس چیز کی زیادہ تاکید فرمائی ہے، وہ تلاوت قرآن کریم ہے۔ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا:رسول خدا (ص)نے حکم روزہ کے بعد جس چیز کی زیادہ تاکید فرمائی ہے، وہ تلاوت قرآن کریم ہے۔ آنحضرت (ص)نے ارشاد فرمایا:ماہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں تدبر و تفکر کو ایک خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ، اس لیے کہ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور شاید ماہ رمضان کی فضیلت کا ایک اہم سبب یہی ہے کہ اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا ہے، جیسا کہ پروردگار نے ارشاد فرمایا:
شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِی ٲُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ھدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنْ الْھدَی وَالْفُرْقَان۔ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے کہ جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں اگرچہ اس مہینہ میں تلاوت قرآن کا بہت ثواب ہے لیکن تلاوت اس کتاب سے استفادہ کا پہلا اور ادنیٰ مرحلہ ہے۔  نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:من جعلہ امامہ قادہ الی الجنۃ و من جعلہ خلفہ ساقہ الی النار.جو شخص قرآن کو آگے رکھے گا اور زندگی میں اس کی پیروی کرے گا قرآن ، قیامت میں اسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا اور جو قرآن کو پس پشت ڈال دے گا اور اس کے دستورات سے لا پرواہی کرے گا، قرآن اسے جہنم میں دھکیل دے گا۔

مولانا موصوف کی رپورٹ کے مطابق تشویق اور جایزے کا مستحق وہی تھا جو ہرمرحلے پہ روشنی ڈالے، جب عید آنے پر ایک ماہ گذشتہ ماہ کے بارے میں سوال ہوا تو شخص نے آواز دی ،ایک محورجواور ہے۔

اس ماہ عظیم میں دوسروں کے ساتھ نیکی:انسان جتنا اپنے معبود سے نزدیک ہو گا اور اس کا رابطہ اپنے رب سے جنا مضبوط ہو گا، وہ اتنا ہی بندگان خدا کے ساتھ مہربان ہو گا اور ان کی حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔اور آنحضرت (ص) نے فرمایا: من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم.جو بھی اس حالت میں اپنے دن کو شروع کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی کوئی فکر نہ ہو تو، ایسا شخص مسلمان نہیں ہے لہٰذا اسلام میں ایسی گوشہ نشینی جائز نہیں جو دیگر مسلمانوں کے امور سے بے توجہی اور لا پرواہی کا سبب بنے۔

خدا اور اولیائے خدا سے قریبی رابطہ:ماہ رمضان، پروردگار اور خاصان و مقربان درگار الٰہی سے قریب ہونے اور ان سے رابطے کو مضبوط و مستحکم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ تا کہ وہ گذشتہ گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہو کر خدا سے رابطہ برقرار کر سکیں۔ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا: توبوا الی اللہ من ذنوبکم. ان انفسکم مرھونۃ باعمالکم ففکوھا باستغفارکم و ظہورکم ثقیلۃ من اوزارکم فخففوا عنھا بطول سجودکم. من تطوع فیہ بصلاۃ کتب اللہ برائۃ من النار.بارگاہ خدا میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی قیدی ہیں، انہیں استغفار کے ذریعہ آزاد کراؤ۔ تمہاری پیٹھ (پشت) گناہوں کے بوجھ سے سنگین ہو گئی ہیں، انہیں طولانی سجدوں کے ذریعہ ہلکا کرو۔ جو شخص بھی اس مہینہ میں نماز فافلہ ادا کرے گا، خدا اس کے لیے آتش جہنم سے برات نامہ لکھ دے گا۔نیز رسول خدا (ص) اور ہادی امت سے اپنا رابطہ مضبوط و مستحکم رکھنے اور اس رابطے کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کے لیے ومن اکثر فیہ من الصلاۃ علیّ ثقل اللہ میزانہ یوم تخف الموازین.جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلوات بھیجے گا، خداوند اس کے میزان اعمال کو اس دن سنگین کر دے گا، جب بہت سے لوگوں کے میزان اعمال ہلکے ہوں گے۔

مولانا اعظمی کی خبر کے مطابق خوشی اس بات کی ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر ماہ گذشتہ کے ہر محورپرلوگوں نے کافی توجہ دی جوتیسرامحوراس انداز سے پیش کیاگیا کہ :تیسرا محور: تقویٰ و پرہیزگاری؎:حضرت علی (ع) نے ارشاد فرمایا:یقینا تقویٰ ہدایت کی کنجی اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اس کے وسیلہ سے کوشش کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اور بہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔جسے اسلامی اصطلاح میں تقویٰ کہا جاتا ہے ، قرآن مجید اور روایات معصومین علیہم السلام میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسے تمام کمالات اور خوبیوں کا سر چشمہ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید نے تقویٰ کو بہترین زاد آخرت بتایا ہے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی ،ایک مقام پر اسے ایک ایسا لباس کہا ہے کہ جو انسان کی برائیوں کو چھپاتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذَلِکَ خَیْرٌ، اور ایک آیت میں آیا ہے کہ خداوند صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ہے: انَّمَا یَتَقَبَّلُ ﷲُ مِنْ الْمُتَّقِینَ.

چوتھا محور: امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کا تعارف:ایک دفعہ امیر المؤمنین (ع) نے حضرت محمدص سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے اس وقت گریہ کا سبب کیا ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا:اے علی (ع)  نہیں معلوم لوگ کس حدتک ان امور مذکورہ پہ عمل پیراہونگے،حضرت علی (ع) کا یہ سوال اس بات کی علامت ہے کہ ایک مؤمن کو کس حد تک اپنے دین و ایمان کی سلامتی کی فکر میں رہنا چاہیے، بالخصوص موت اور اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرتے وقت، اس لیے کہ بعض روایات کی روشنی میں موت کے وقت شیطان اپنی پوری کوشش کر ڈالتا ہے کہ کسی طرح مؤمن کے ایمان کو اس سے چھین لے۔ بسا اقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایمان و اعتقاد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے موت کے وقت ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شقی و بدبخت بن جاتا ہے۔دعائے عدیلہ (مفاتیح الجنان)قرآن مؤمنین سے ایسی ہی موت چاہتا ہے:یَا ٲَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ الاَّ وَٲَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.ایمان والو ! اللہ سے اس طرح ڈرو کہ جیسا ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار ایسی حالت میں مرنا کہ تم مسلمان ہو۔سورۂ آل عمران،آیت اس خطبہ میں بھی رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنا ہم رتبہ اور ہم مرتبہ قرار دیتے ہوئے، امام علی (ع) کو مخاطب قرار دے کر فرمایا:یا علی! من قتلک فقد قتلنی و من ابغضک فقد ابغضنی و من سبک فقد سبنی لانک منی کنفسی، روحک من روحی و طینتک من طینتی.جس طرح ولایت نبی آپ (ص) کی نبوت و رسالت میں ظاہر ہوتی ہے اور تمام لوگوں پر آپ کے فرامین پر عمل کرنا واجب ہے، اسی طرح اوصیائے نبی (ص) کی ولایت ، ان حضرات کی امامت میں ظاہر ہوتی ہے اور سب پر واجب ہے کہ ان کی امامت پر ایمان لائیں اور ان کے حکم کی اطاعت کریں۔ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:ان اللہ تبارک و تعالیٰ۔ و اختارنی للنبوۃ و اختارک للامامۃ فمن انکر امامتک فقد انکر نبوتی.اس کے بعد ارشاد فرمایا:یا علی ! انت وصیی و ابو ولدی و زوج ابنتی و خلیفتی علی امتی فی حیاتی و بعد موتی ، امرک امری و نھیک نھیی.اے علی! تم ہی میرے وصی ، میرے بچوں (حسنین علیہما السلام) کے والد اور میری بیٹی کے شوہر ہو۔ میری امت کے درمیان میری زندگی میں اور میری وفات کے بعد میرے جانشین ہو۔رسول خدا (ص)نے اس ماہ کی فضیلت کے آخری حصے میں اس طرح فرماتے ہیں:اقسم الذی بعثنی بالنبوۃ و جعلنی خیر البریۃ ، انک لحجۃ اللہ علیٰ خلقہ و امینہ علیٰ سرہ و خلیفتہ علیٰ عبادہ.قسم اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنایا اور مخلوقات میں سب سے افضل قرار دیا، بے شک تم خلق خدا پر اس کی حجت ہو ، سر الٰہی کے راز دار اور بندگان خدا پر خلیفت اللہ ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .