۱ خرداد ۱۴۰۳ |۱۳ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 21, 2024
عطر قرآن

حوزہ|ہر معاشرے اور امت کی ایک موت و حیات اور مستقل شخصیت ہے۔ انسان اپنے اسلاف کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے سبب ان کا مؤاخذہ ہو گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿بقرہ، 134﴾

ترجمہ: یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی اس کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہے جو تم کماؤگے اور وہ جو کچھ کرتے تھے اس کے بارے میں تم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی.

تفســــــــیر قــــرآن:

1️⃣ تمام انسان حتی عظیم الشان انبیاء علیہم السلام بھی دنیا میں نہ رہے پس سب کو عالم آخرت کی طرف سفر کرنا ہو گا.
2️⃣ نیک اعمال کی جزا ان کے انجام دینے والوں کے ساتھ مختص ہے.
3️⃣ یہودیوں کا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور انکے جیسے انبیاء علیہم السلام کی فضیلتوں اور نیک اعمال سے بہرہ مند ہونا ان کے نادرست عقائد میں سے تھا.
4️⃣ ہر فرد اور ہر امت اپنے ہی نیک اعمال کی جزا سے بہرہ مند ہو گی.
5️⃣ ہر انسان اور ہر معاشرے کے عمل کا نتیجہ انہی سے متعلق ہے اور انہی کی طرف لوٹنا چاہیے.
6️⃣ ہر معاشرے اور امت کی ایک موت و حیات اور مستقل شخصیت ہے.
7️⃣ انسان اپنے اسلاف کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے سبب ان کا مؤاخذہ ہو گا.
8️⃣ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رشتہ داری اور ان کی نسل سے ہونا قیامت کے دن کارساز نہ ہو گا اور نہ ہی اپنے اعمال کے نتائج سے رہائی کا موجب بنے گا.

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راھنما، سورہ بقرہ
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .