تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿بقرہ، 135)
ترجمہ: اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ یہودی ہو جاؤ یا نصرانی تاکہ ہدایت پا جاؤ۔ (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ (نہیں) بلکہ ہم ابراہیم (ع) کی ملت پر ہیں جو نرے کھرے موحد تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے.
تفســــــــیر قــــرآن:
1️⃣ تمام انسان حتیٰ عظیم الشان انبیاء علیہم السلام بھی دنیا میں نہ رہے اور سب کو عالم آخرت کی طرف سفر کرنا ہو گا.
2️⃣ انبیاء کرام علیہم السلام کے نیک اعمال کی جزا ان کے ساتھ مختص ہے.
3️⃣ انبیاء کرام کے ساتھ رشتہ داری اور ان کی نسل سے ہونا قیامت میں کارساز نہ ہو گا اور نہ ہی اپنے اعمال کے نتائج سے رہائی کا موجب بنے گا.
4️⃣ ہر فرد اور ہر امت اپنے ہی نیک اعمال کی جزا سے بہرہ مند ہو گی.
5️⃣ ہر انسان اور ہر معاشرے کے عمل کا نتیجہ انہی سے متعلق ہے اور انہی کی طرف لوٹنا ہے.
6️⃣ ہر معاشرے اور امت کی ایک موت و حیات اور مستقل شخصیت ہے.
7️⃣ انسان اپنے اسلاف کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی ان کے سبب ان کا مؤاخذہ ہو گا.
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راھنما، سورہ بقرہ
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•