تحریر: مولانا محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی | ۱۲ربیع اول سے ۱۷ ربیع اول تک کے ایام کو "ہفتہ وحدت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کو انقلاب اسلامی ایران کے بعد مرحوم آیتالله منتظری کے مشورہ سے اور امام خمینی(ره) کے موافقت سے وجود میں لایا گیا تھا یہ خود ایک قسم کی بہترین ابتکاری اور تخلیقی عمل شمار ہوتاہے۔
وحدت اسلامی ایک ایسا موضوع ہے جو سالوں سال سے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان گفتگو کا عنوان بنا ہوا ہے سید جمال الدین اسد آبادی وہ پہلا شخص ہے جس نے سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد رہنے کا مشورہ دیا تھا اور معاصرین کے دور میں مرحوم آیت اللہ بروجردی شیعوں میں اور مرحوم شیخ محمود شلتوت اہل سنت کے درمیان وحدت اسلامی کے علمبردار تھے اتحاد بین المسلمین کے لیے آیت اللہ سید حسین بروجردی اور دیگر اکابر علما نے ادارہ تقریب بین المذاہب الاسلامیہ بنایا اور امت کے اتحاد کے لیے گراں قدر کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ اس ادارے نے تمام مسالک کو باہم قریب لانے کے لیے” الرسالہ“ کے نام سے ایک مجلہ کا اجرا کیا۔آیت اللہ سید حسین بروجردی نے اتحاد بین المسلمین کے لیے بہت مفید عملی اقدامات کیے۔ اسی طرح جامعہ ازہر کے سابق سربراہ مفتی اعظم شیخ محمد شلتوت نے جودنیائے اہل سنت کے سب سے بڑے مرکز ِعلم کے سربراہ تھے، شیعہ مذہب کودنیائے اسلام کے تمام مکاتب فقہ میں سے ایک فقہی مکتب کے عنوان سے تسلیم کیا۔ جامعہ ازہر میں فقہ جعفریہ کی تدریس شیخ شلتوت ہی کے دور میں شروع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں پورے عالم میں اس کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے۔ اتحاد بین المسلمین میں آیت اللہ شیخ جعفر کاشف الغطاءکی خدمات بھی لائق تحسین ہیں۔ امت کے اتحاد و یگانگت کے لیے سید جمال الدین افغانی کا کردار بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے ۔ امام خمینی (رہ) اور شہید آیت اللہ مطہری اور مرحوم آیت اللہ منتظری نے اس تحریک کو آگے بڑھایا اور آج کے دور میں رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ سید علی سستانی حفظہمااللہ اور دیگرا مراجع عظام اس تحریک کو آگے بڑھانے میں دن دوگنی اور رات چوگنی کوسش کررہے ہیں۔
وحدت اسلامی سے مراد کیا ہے؟ کیا وحدت اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے مختلف فرقے سب ملکر ایک فرقہ کے عقاید و افکار کو قبول کریں اور اپنے اپنے خصوصی عقاید سے دروی اختیار کریں؟ یا اس سے مراد یہ ہے کہ مخلتف فرقوں کے درمیان موجود مشترک عقاید کو اگھٹا کرکے نیا فرقہ وجود میں لایا جائے؟ وحدت اسلامی سے مراد یہ دو ہرگز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اسلام کے سارے فرق و مذاہب اپنے اپنے عقاید کے مطابق عمل کریں لیکن علمی بحث اور گفتگو کا دروازہ کھلارہے تاکہ مسلمان آپس میں بحث اور مباحثہ کرسکے اور بہترین نتایج حاصل ہوسکے۔ اورسارے مسلمان فرق و مذاہب کا مشترک دشمن کے مدمقابل متحد ہونا وحدت اسلامی کے مہم اہداف میں سے ایک ہے۔
اتحاد اور اتفاق اسلام کا ایک اہم رکن ہے جسکو ہمیں قرآن کریم اور سیرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حاصل کرنا چاہئے قرآن حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں یوں کہتا ہے میں:" محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم" (فتح٢٩) محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشفق و مہربان ہیں، پس مفہوم وحدت فقط یہ نہیں کہ تمام مسلمان آپس میں دوستی و محبت کو برقرار رکھیں، بلکہ عملی طور پر متحد ہو کر قرآن و اسلام اور اسکے اصول سے دفاع کی خاطر دشمن اسلام کے سامنے شمشیر بکف ہو جائیں۔
قرآن و حدیث کے مطابق مفہوم وحدت بہت وسیع ہے وحدت نام ہے امت واحدہ کا، وحدت نام ہے اخوت مسلمین کا، وحدت نام ہے حبل اللہ کی گرفت کا، وحدت نام ہے "ولاتفرقوا فی الدین" کا، وحدت نام ہے "ولا تکونوا من المشرکین" کا، وحدت نام ہے "فالف قلوبکم" کا، وحدت نام ہے "کان من الذین آمنوا" کا، وحدت نام ہے "واحبب لہ ما تحب لنفسک"کا، وحدت نام ہے دین الٰہی سے تمسک کا، وحدت نام ہے اصول و فروع کی حفاظت کا، پس اگر وحدت اسلامی، اخلاقی و قرآنی اصولوں کی بنیاد پر مملکت اسلامی میں مسلمانوں کے درمیان ایجاد ہو جائے تو پھر وہ ملک کبھی بھی غلامی کے طوق میں نہیں جکڑ سکتا ، اس لئے کہ لطف الٰہی ہر لحاظ سے اسکے شامل حال ہو گا، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کا کلیجہ وحشت و ترس سے دہل اٹھے گا۔ وحدت اسلامی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے کہ: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر کی صدا صدیوں سے آرہی ہے لیکن مسلمان اس کی حقیقت کا یا تو ادراک ہی نہیں کرتے یا ادراک کر چکے ہیں تو اپنے اس ادراک پر یقین نہیں رکھتے، قرآن مجید نے یہاں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ہے کیونکہ قرآن مبالغہ آمیز گفتگو سے پاک، ایک حقیقت گو کتاب ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم قرآن کی اس حقیقت پر یقین پیدا کریں اور قرآن کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے وحدت اسلامی کے لئے قدم بڑھائیں، اس کے لئے ہمیں تینوں قوتوں (آنکھ ،کان اور دل)کی توجہ کو مبذول کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ قرآن مجید جو کبھی عمومِ مسلمین کے درمیانی رشتے کو اخوت سے تعبیر کر رہا ہے،کبھی مسلمانوں کو "واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاً ولا تفرقوا" کے عنوان سے ایک واجب عینی اجتماعی کی تعلیم دے رہا ہے اور کبھی "وَلاَتَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذہَبَ رِیحُکُم"کے ذریعے اس واجب اجتماعی کی مخالفت کے عواقب اور آثار شوم سے ڈرا رہا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :گزشتہ امتیں جب تک باہم اور متحد تھیں پیہم ترقی کی راہ پر گامزن تھیں اور عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ہمکنار رہیں اور دنیا والوں کی رہبر اور ان پر حاکم رہیں۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ، مادیات کی طرف مائل ہوئے ، احساس برتری ، قومی و فرقہ وارانہ انتشار وپراگندگی کا شکار ہو گئے ، آپس میں لڑنے لگے تو خدا وند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا ۔خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا۔ مثال کے طور پر کسریٰ و قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ہو گئے۔ انھیں اپنا غلام بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں دھکیل دیا اور انھیں ذلت و فقر جہالت و انتشار سے دو چار کر دیا۔ دوسری جگہ آپ اپنے ایک خطبے میں مسلمانوں کے رہبر و رہنما کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت میں حاکم کی حیثیت وہی ہے جو تسبیح میں دھاگے کی ہوتی ہے، جو سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اگر یہ لڑی ٹوٹ جائے تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اگر اتحاد نہ ہو، ان کی توانائیاں اور صلاحتیں بکھر جائیں اور ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو امت مسلمہ کا عظیم پوٹینشل اور صلاحیت بغیر کسی مقصد و ہدف کے ضائع ہو جائے گی۔
آج اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ماضی میں بھی مسلمانوں اور اسلام کو جب کبھی بھی نقصان پہنچا تو وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف و افتراق کا ہی نتیجہ تھا۔ آج دشمن کی طرف سے میڈیا وار اور نرم جنگ میں جس موضوع پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ آج یمن، بحرین، نائیجریا، میانمار، افغانستان، عراق، شام اور فلسطین جیسے ممالک پر نظر دوڑائیں تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں نے مسلمان ریاستوں کو کس طرح کے چیلنجوں اور مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اگر یکجا اور ہم آہنگ ہوتی کیا مذکورہ بحران زدہ مسلمان ممالک کے عوام کی یہ صورتحال ہوتی۔ اگر مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے تو اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکتیں۔
"جس دن تفرقہ کو دور کرکے ریسمان الٰہی سے متمسک ہو کر معاشرے کو وحدت کا لباس پہنا دیا تو پھر اسلام کے سامنے کفر کی بڑی سے بڑی طاقت بھی گھٹنے ٹیک دے گی، کیونکہ اس وحدت میں اتنا عظم و استحکام پایا جاتا ہے کہ انسان اقلیت کے باوجود بھی دشمن کے سامنے “کَانَّھُم بُنیَان مرَصُوص” کا مصداق ہوتا ہے"۔
ایک درد انگیز نوحے کی صورت میں یوں بیان کیا ہے :
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، ایمان بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج کے دور میں ہر قوم و ملت اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں لیکن مسلمان اقوام کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت اور اہمیت روز بہ روز بیشتر ہوتی جا رہی ہے جس کا احساس ہر مسلمان کو ہونا چاہیئے، اور اس حقیقت سے کوئی بھی عاقل انسان انکار نہیں کر سکتا، اس ضروری اور اہم امر کا حصول آیات اور روایات کی روشنی میں ہر مسلمان پر ایک فریضہ الٰہی اجتماعی ہے اور تاریخ میں جس جس کو اپنے اس فریضہ کا علم تھا اور اس پر عمل کرنے کی فکر میں رہتا تھا ،اس نے اپنی بساط کے مطابق اس فریضہ کی ادائیگی کی کوشش کی، خصوصاً سلطنت عثمانی کے خاتمہ کے بعد مسلمان مفکرین میں اتحاد و وحدت اسلامی کی ضرورت کا احساس زیادہ ہونے لگا تو دنیا کے مختلف گوشوں سے وحدت اسلامی کی آواز سنائی دینے لگی۔ کبھی قید خانے کی دیواروں سے “حسن البنا ” کی “یا ایہا المسلمون اتحدوا اتحدوا ” کی آواز آتی تھی، تو کبھی فلسطین کی گلیوں میں اسرائیل کی سفاکی کا شکار بوڑھا شیخ احمد یاسین وہیل چیئر پر سوار دشمن سے جہاد کرتے ہوئے “یا للمسلمین “کی صدا بلند کرتا تھا ۔کبھی تختہ دار سے “سید قطب ” اور” شہید مدرس ” کو مسلمانوں کے درد میں نوحہ کناں دیکھتے ہیں تو کبھی اقبال کو دیار غربت میں مسلمانوں کی زیور گم گشتہ کی تلاش میں مرثیہ خواں پاتے ہیں۔ کبھی برصغیر کے دشت و بیابان سے “مودودی ” کی صدائے اتحاد سنائی دیتی ہے تو کبھی افغانستان کے پہاڑوں سے اٹھنے والا” سید جمال الدین ” اتحاد کی خاطر مسلمان حکمرانوں کو دستک دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کبھی بعثیوں کے شکنجے میں” شہید باقر الصدر ” اپنی ہمشیرہ کے ساتھ امت اسلامی کے نام اپنے خون سے پیغام وحدت لکھتے ہیں تو کبھی “امام موسیٰ صدر ” اور “ڈاکٹر چمران ” لبنان کی سنگلاخ وادیوں میں اتحاد کے بیج بوتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
ان تمام کاوشوں اور کوششوں کی جتنی بھی قدر دانی ہو کم ہے، لیکن ان تمام آوازوں میں ایک طاقت کی کمی تھی جس کی وجہ سے یہ آواز اتنی پر اثر نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیئے تھی اور وہ طاقت ولایت کی طاقت تھی یعنی یہ دعوت ولایت فقیہ کی طاقت اور قوت سے خالی تھی جس کی وجہ سے اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود زیادہ وسیع انداز میں بار آور نہیں ہو سکی۔
اگرچہ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان افکار اور شخصیات کا نظام ولایت ِ فقیہ کے قیام میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور شامل ہے لیکن جیسے ہی اس دعوت کی پشت پر ایک ولی فقیہ آ کر کھڑا ہو گیا تو اس آواز نے قوت پکڑ لی اور دنیا کے درودیوار میں لرزہ طاری کر دیا اور اتحاد و وحدت اسلامی میں وہ کردار ادا کیا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس بنا پر لازم ہے کہ اتحاد کے علمبرداروں کی پیروی کرتے ہوئے خود کو آپسی اختلافات سے نجات دیں اور ہمیشہ ملنے اور جوڑنے کا کام کریں۔یہی ہماری دینی اور اجتماعی ذمہ داری ہے ۔