۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
ملھوفین

حوزه/ امام حسن عسکری علیہ السلام جو خاندان عصمت کے ۱۳ویں ستارے ہیں ان کی زیارت کا ایک جملہ ہے جس میں ہم انہیں مخاطب قرار دیتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا فَرَجَ الْمَلْھُوفِینَ سلام ہو آپ پر اے وہ مولا جو غمزدہ اور مضطرکی پریشانی دور کرنے والے ہیں ملھوفین۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام حسن عسکری علیہ السلام جو خاندان عصمت کے ۱۳ویں ستارے ہیں ان کی زیارت کا ایک جملہ ہے جس میں ہم انہیں مخاطب قرار دیتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا فَرَجَ الْمَلْھُوفِینَ سلام ہو آپ پر اے وہ مولا جو غمزدہ اور مضطرکی پریشانی دور کرنے والے ہیں ملھوفین,ملھوف کی جمع ہے جس کا اصل مصدر “الّھوف” ہے جس کے معنی ہیں غمزدہ، مضطر، پریشان حال یا دل شکستہ کے ہیں۔

عربی لغت میں "رَجُلٌ مَلْهُوفٌ" کی وضاحت یوں بیان ہوئی ہے : حَزِينٌ مَفْجُوعٌ، إِمَّا لِذَهَابِ مَالِهِ أَو فُقْدَانِ عَزِيزٍ عَلَيْهِ وهُوَ يُنَادِي ويَسْتَغِيثُ : ملھوف اس محزون اور دل شکستہ شخص کو کہا جاتا ہے جو یا تو مال کے چلے جانے کے غم میں یا کسی عزیزکے بچھڑ جانے کے غم میں محزون اور دل شکستہ ہو اور وہ مدد کے لیے کسی کو پکار رہا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا اور آپ کا امام پریشان اور بے کس لوگوں کے لیے امید کی کرن ہیں خصوصا آج کے فلسطین کے ملھوفین کے لیے۔

آج فلسطین خون اور آگ کے درمیان ہے اور وہاں کے ملھوفین نے صدائے استغاثہ بلند کیا ہوا ہے خبروں کے مطابق غزہ میں اس وقت تک ۶۰ فیصد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں کئی ہزار شھادتیں، ہسپتالوں میں جگہ نہیں،فلسطین کے مسلمان اپنے عزیزوں کے لاشوں کے کنارے "ھل من ناصر" کی صدا بلند کر رہے ہیں لیکن سوائے ایک ملک ایران کے اور چند مزاحمتی تنظیموں کے علاوہ کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں باقی دیگرمسلمان حکمران اور مسلمان ممالک کی افواج کی جانب سے اب تک صرف چند بیانات کے علاوہ کوئی اور عملی اقدام ان ستم دیدہ اور مظلوموں کے لیے نہیں اٹھایا گیا ہے۔ لھذا میری اور آپ کی زمہ داری ہے کہ ان مظلومین کی فریاد کو رسا بنائیں اور ان کے یار و مدد گار بنیں۔

لیکن ایسے میں جہاں فلسطین کے مظلومین خاک اور خون میں نہا رہے ہیں ہمارے درمیان کچھ ایسے خشک مقدس ماآب بھی یہ فتوی دیتے ہوئے نظر آئیں گے کہ جناب اس دور میں تو ہماری زمہ داری سکوت ہے ہمیں کسی کے لیے آواز بلند نہیں کرنی ہے کیونکہ فلسطین اورغزہ کے مسلمان تو سنی ہیں اور فلسطین کی مدد کے لیے تو کوئی روایت ہی نہیں آئی ہے جب تک امام زمانہ عج تشریف نہیں لاتے ہماری زمہ داری سکوت ہے۔اور اس غلط تفکر کی بنیاد پر یہ افراد زمہ داریوں سے منہ چراتے ہیں اور عوام کو گمراہ بھی کرتے ہیں۔آج امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت کے موقع پرتبرک کے عنوان سے چند روایت کی طرف توجہ کرتے ہیں تا کہ ہم اپنی شرعی زمہ داری کو معین کرسکیں اور مصلحت پسندی کے کھول سے باہر آئیں-

امام حسن عسکری اور اہل سنت کے ساتھ تعلقات :

امام حسن عسکری علیہ السلام نے شہادت سے چند دن قبل اپنے چند اصحاب کے درمیان برادران اہل سنت کے متعلق ہماری زمہ داریوں کو یوں بیان فرمایا : "صلُّوا فِی عَشَائِرِهِمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ أَدُّوا حُقُوقَهُم (أعيان الشّيعة، ج2، ص41)

۱۔ تم ان قبائل کے درمیان نماز پڑھو۔

۲ ان کے جنازوں کی تشییع میں شرکت کرو۔

۳۔ ان کے مریضوں کی عیادت کرو۔

۴۔ ان کے حقوق ادا کرو

امام کے اس وصیت نامہ کو پڑھ کر بخوبی واضح ہوسکتا ہے آج فلسطین کے مظلوم ملھوفین کا حق ہماری گردن پر کتنا ہے امام فرما رہے ہیں ان کے حقوق ادا کرو اب سوال یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان اور شیعہ کیا فلسطین کے مظلومین کی نسبت ہماری زمہ داری خاموشی اور سکوت ہے ؟ ان کی اس پریشانی کے عالم میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری گردن پر کوئی حق نہیں ہے کیا ؟ ایک مسلمان بھائی کے حقوق کے بارے میں امام حسن عسکری ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :

أعْرَفُ النّاسِ بحُقوقِ إخْوانِهِ وأشَدُّهُم قَضاءً لَها أعْظَمُهُم عِند اللّه شَأنا

(بحارالانوار: ج ۴۱، ص ۵۵، ح ۵)

لوگوں میں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ شان و منزلت رکھنے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اپنے بھائی کے حقوق کو جانتا ہو اور اس کے حقوق کو ادا کرنے میں سب سے پہل کرتا ہو۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر میرا ایک مسلمان بھائی صہیونیوں کے حملوں میں ٹکرے ٹکرے ہو رہا ہو اس کا گھر تباہ ہو رہا ہو اس کے بچے خاک اور خون میں غلطاں ہوں تو میں کیا صرف تماشائی بنا رہوں؟ ان کا میری گردن پر کوئی حق نہیں ؟ کیا اگر میں اس کی نصرت کے لیے جا نہیں سکتا تو اس کے لیے آواز بھی بلند نہیں کرسکتا ؟ کیا امام زمانہ عج کے ظہور کے بعد ان مظلوموں کا حق ادا کروں گا ؟ اس سے قبل میرے گردن پر کوئی حق نہیں کسی کا؟

در حقیقت اس طرح کے تفکر رکھنے والے افراد زمہ داریوں سے منہ چرانے کی خاطر دین کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں تا کہ ان کے لیے آسانی ہو اوران کو کوئی زحمت نہ اٹھانی پڑے اور دین کے اجتماعی تصور کوبھلا کر صرف دین کا انفرادی پہلو وہ بھی ناقص انداز میں لوگوں میں پیش کیا جائے تا کہ عوام میں مقبولیت بھی باقی رہے اور کسی مشکل کا سامنہ بھی نہ کرنا پڑے۔

عزیزان محترم اہلبیت علیھم السلام نے قدم قدم پر ہماری انفرادی زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی زمہ داریوں کی طرف بھی ہماری ہدایت فرمائی ہے لہذا یہ درست نہیں کہ میں اہلبیت سے صرف وہ چیز لوں جو میرے لیے آسان ہو آج جس امام کی ولادت ہے دیکھیں کہ ان کی زیارت کے آخر میں ہم اپنے پروردگار سے کیا دعا کر رہے ہیں اور اس دعا کے ذریعے حق کی نصرت اور باطل کی ذلت کے لیے ہماری کیا زمہ داری ہے :

"أَسْأَلُ اللهَ بِالشَّأْنِ الَّذِی لَکُمْ عِنْدَہُ أَنْ یَتَقَبَّلَ زِیَارَتِی لَکُمْ وَیَشْکُرَ سَعْیِی إلَیْکُمْ وَیَسْتَجِیبَ دُعَائِی بِکُمْ وَیَجْعَلَنِی مِنْ أَنْصَارِ الْحَقِّ وَأَتْباعِہِ وَأَشْیاعِہِ وَمَوالِیہِ وَمُحِبِّیہِ"

میں سوال کرتا ہوں خدا سے اس شان کے واسطے سے جو آپ، پرورگار کے ہاں رکھتے ہیں کہ خدا میری یہ زیارت قبول فرمائے آپ کے واسطے سے میری دعا قبول فرمائے اور مجھے حق کی نصرت کرنے والوں ،ان کے ساتھیوں، دوستوں اور چاہنے والوں میں سے قرار دے۔ الھی آمین

کیا حق والوں کی نصرت ان کا ساتھ دینا ان کے ہمراہ رہنا صرف امام زمانہ عج کے ظہور کے بعد کے لیے ہوگا اور اہلبیت علیہم السلام کے دور کے لیے تھااور آج مجھے صرف سکوت اور خاموشی کی زندگی گزارنی ہے ؟؟

خدا ہمیں توفیق دے کہ خون کے آخری قطرے تک حق کی نصرت کرتے رہیں اور اپنی زمہ داریوں کو بطور احسن انجام دیں.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .