کیا صدقہ کا پیسہ مُدرِّس یا پیش امام کو تنخواہ کے طور پر دے سکتے ہیں آغا سیستانی صاحب رہبر معظم دونوں کا کیا حکم ہے؟
اکثر مراجع تقلید (یعنی آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ خامنہ ای وغیرہ)، اس سلسلے میں کہتے ہیں:
غیر سید کسی سید کو زکوٰۃ (واجب) اور فطرہ نہیں دے سکتا، لیکن دوسرے وجوہات سید کو ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کفارہ، رد مظالم اور مستحب صدقہ
[امام خمینى، سید روح اللّٰه ، تحریر الوسیله، ج 2، ص 91، م 3 ، مؤسسه مطبوعات دار العلم، قم، اول، بیتا؛ خویى، سید ابو القاسم، منهاج الصالحین، ج 1، ص 316، م 1153، ، نشر مدینة العلم، قم، 28، 1410 ه ق؛ وحید خراسانى، حسین، منهاج الصالحین، ج 2، ص 350، م 1153، مدرسه امام باقر (ع)، قم، پنجم، 1428 ه ق؛ سیستانى، سید على، منهاج الصالحین، ج 2، ص 485، م 1604، بیجا، بیتا؛ فاضل لنکرانى، محمد، جامع المسائل (فارسى)، ج 1، ص 157، س 602، انتشارات امیر قلم، قم، یازدهم، بیتا؛ تبریزى، جواد، استفتاءات جدید، قم، ج 2، ص 130، اول، ه ق؛ بهجت، محمد تقى، استفتائات، ج 2، ص 488، س 3299، دفتر حضرت آیة الله بهجت، قم، اول، 1428 ه ق؛ ر.ک: پایگاه اطلاع رسانی دفتر آیت الله خامنهای، سطر آخر.]
البتہ، بعض مراجع (یعنی آیت اللہ مکارم شیرازی وغیرہ)، سادات کو کسی بھی قسم کی واجب رقوم (خمس کے علاوہ) کی ادائیگی میں اشکال کہتے ہیں، جب تک کہ ادا کرنے والا سید نہ ہو۔
[گلپایگانى، سید محمد رضا، مجمع المسائل، ج 1، ص 511، س 28، دار القرآن الکریم، قم، دوم، 1409 ه ق؛ صافى گلپایگانى، لطف الله، جامع الأحکام، ج1، ص 137، انتشارات حضرت معصومه(س)، قم، چهارم، 1417 ه ق؛ ر.ک: پایگاه اطلاع رسانی دفتر آیت الله مکارم شیرازی.]