۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
سلیم

حوزہ / یمن کے سیاسی کارکن سید سالم المنتصر نے ایک نوٹ میں لکھا ہے: امریکہ نے صیہونیوں کے تعاون سے غزہ کے ساحل پر ایک مصنوعی بندرگاہ بنائی لیکن اس کا اصل مقصد فلسطینیوں کو زبردستی قبرص کے جزیرے پر منتقل کرنا اور پھر فلسطینیوں کو کئی ممالک میں منتشر کر دینا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، غزہ جنگ کو 7 ماہ سے زائد عرصے اور اس دوران تقریباً 40 ہزار فلسطینیوں کی شہادت کے بعد اب صیہونی حکومت نے عرب ممالک کی خاموشی کے سائے میں اپنی جنگی مشینری کو رفح کی جانب روانہ کر دیا ہے۔

اس صورت حال میں مسئلہ فلسطین کا واحد حل دنیا کے مختلف ممالک میں مسلم اور غیر مسلم دونوں آزاد لوگوں کی بیداری میں ہے۔

غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے آغاز سے لے کر آج تک وہاں ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا ہے، بنیادی ڈھانچے سے لے کر رہائشی عمارتوں تک اور حتی تمام شہری نشانات کو تباہ کر دیا گیا ہے اور زندگی کے تمام عناصر کو تباہ کر دیا گیا ہے، جس سے غزہ کی پٹی ایک غیر محفوظ مقام میں تبدیل ہو چکی ہے۔

اس جنگ نے غزہ کو فلسطینیوں کی زندگیوں کے لیے غیر موزوں مقام میں بدل دیا ہے اور فلسطینیوں کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو دونوں تلخ ہیں، یا تو غزہ کی پٹی میں موت اور بھوک کی حالت میں باقی رہنا یا پھر غزہ کی پٹی کو دوبارہ واپس نہ آنے کی شرط کے ساتھ ترک کرنا۔

غزہ کی پٹی اس وقت چاروں طرف سے صہیونیوں کے گھیرے میں ہے اور قابض فوج نے رفح کی زمینی گزرگاہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد فلسطینیوں کے لیے غزہ کی پٹی سے نکلنے کا واحد راستہ سمندر ہی چھوڑا ہے۔

لیکن اس کے پیچھے اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے تمام علاقوں سے فلسطینیوں کو زبردستی قبرص کے جزیرے میں منتقل کیا جائے اور پھر فلسطینیوں کو کئی ممالک میں تتر بتر کر دیا جائے۔

سب کچھ صہیونیوں کے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے اور عنقریب غزہ کی پٹی کو اس کی آبادی سے خالی کر دیا جائے گا اور صرف چند مجاہدین اور فلسطینی باشندے باقی رہ جائیں گے جو زبردستی بے گھر ہونے سے انکاری ہوں گے اور بدقسمتی سے یہ لوگ انتہائی ہولناک طریقے سے مارے جائیں گے اور غزہ کی پٹی پر ان پر بمباری کی جائے گی۔

اس دوران نیتن یاہو کو غزہ کی پٹی میں صہیونی قیدیوں کی کوئی پرواہ نہیں لیکن جو چیز ان کے لیے اہم ہے وہ مقاومتی تحریکوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور صیہونی حکومت کے جغرافیائی دائرہ کار کو وسعت دینے اور مصر کی سرحدوں تک پہنچانے کی کوشش ہے۔

اس تباہی سے بچنے کا اس وقت واحد حل صیہونی حکومت پر ہر طرف سے زمینی حملہ، الاقصیٰ شریف اور تمام مقبوضہ فلسطین کی آزادی، آباد کاروں کی اپنے ملکوں میں واپسی اور امریکی اڈوں کا مشرق وسطیٰ سے زبردستی یا طاقت کے ذریعے خاتمہ ہے۔

بلاشبہ مغرب ان اقدامات پر ردعمل ظاہر کرے گا لیکن اللہ کے نام پر جہاد اور مظلوموں کے دفاع کی قیمت حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور سمجھوتہ کرنے اور رب العالمین کے غضب کے سامنے ذلت و رسوائی سے بہت کم ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .