۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
آیت اللہ شیخ بشیر حسین نجفی

حوزہ/ مرجع تقلید آیت اﷲ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین النجفی نے محرم الحرام کے موقع پر خطباء اور مبلغین کے نام ایک پیغام جاری کیا ہے جسے قارئین کے خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مرجع تقلید آیت اﷲ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین النجفی نے محرم الحرام کے موقع پر خطباء اور مبلغین کے نام ایک پیغام جاری کیا ہے جسے قارئین کے خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اعوذ اباللہ من الشیطان الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

1۔ میرے عزیز بھائیو،محترم خطیبو ،منبرِحسینی کے خدمت گزارو اور میدا نِ خطابت کے شہسوارو !بے شک اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی نعمت سے نوازا ہے کہ آپ امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ الشریف کے نائبین فقہاء کے فریضہ کے بعد سب سے اہم،اشرف اور افضل عمل و فریضہ کو انجام دے رہے ہیں کہ جو لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینا، انھیں وعظ و نصیحت ، تبلیغ اور ہدایت و رہنمائی کرنا ہے ۔ ہمارے ائمہ طاہرین ؑ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے سارے سال کے دوران اور خاص طور پر محرم کے ایام میں عزاداری اور مجا لسِ عزا برپا کرنے کی بہت تاکید کی ہے ،ائمہ طاہرین ؑکی جانب سے مجالسِ عزا کا اس قدر اہتمام اور تاکید امام حسین علیہ السلا م سے خونی، روحانی اور عاطفی رشتہ کی بنا پر نہ تھی بلکہ یہ سب اہتمام فقط اس وجہ سے تھا کہ سید الشہدا ء ؑکے مقدس انقلاب اور قربانیوں نے اس دین اسلام کو حیاتِ ابدی بخشی کہ جو شجرۂ ملعونہ بنی امیہ کے ظلم و ستم ، فساد اور بے راہ روی تلے اپنے آثار کھو رہا تھا،بنی امیہ کا امتِ مسلمہ پر تسلط اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کرنا امت کے اس انحراف کا نتیجہ تھا کہ جس کی وجہ سے ظاہری حکومت اس کے اصل حقداروں سے غصب ہو کر امت کے نا اہل افراد کے ہاتھوں میں آگئی۔

2۔ جب ہم واقعہ کربلا سے پہلے اور بعد والے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کو بچانے کے لیے امام حسین علیہ السلام کا قیام اور ایسا حسینی انقلاب نہایت ضروری او رحتمی تھا اور اسی جانب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی اشارہ کرتے ہیں ، دین کے حقیقی قائدین رسول خدا صلی اﷲ علیہ وا ٓلہ وسلم ، حضرت علی ؑ حضرت امام حسنؑ یہ جانتے تھے کہ دین کو بچانے کے لیے اس انقلابِ حسینی کی اشد ضرورت تھی یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیھم السلام نے اس قیام حسینی اور اس کی یاد کو زندہ اور باقی رکھنے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ اس انقلاب کی بقا دین کی بقا ہے جب تک اس انقلاب کا شعلہ روشن اور مستمر رہے گا لوگوں کو شریعتِ محمدؐی کے احیا اور دین کی مدد و نصرت کے لیے ابھارتا ، ان کے شوق اور ہمت میں اضافہ کرتا اور ان کے نفوس پر تاریخی اثرات رونما کرتا رہے گا۔

پس اس اعتبار سے آپ خطباء کا عمل اسی سانچہ میں آتا ہے کہ جس کی کڑی شہداء اور اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے سلسلہ سے جا ملتی ہے ۔میں آپ کو اس عظیم رتبے اور منزلت پر فائز ہونے پہ خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔

3۔ واجب ہے کہ ہم لوگوں کو مجالس عزاء اور ماتمی جلوسوں میں شرکت کرنے کی تاکید کریں اور اس کے ساتھ انھیں ان جلوسوں وغیرہ میں شریعت کے حدود سے باہر نکلنے سے روکیں اور انھیں ایسے کاموں کی اجازت نہ دیں کہ جو امام حسین علیہ السلام کے مقدس انقلاب کی توہین کا باعث بنیں۔

اسی طرح ضروری ہے کہ عزاداری کو سیاسی مقاصد سے دور رکھا جائے اور کوئی شخص امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور اس واقعہ کو اپنے دنیاوی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے ۔

4۔ خطیب کے لیے واجب ہے کہ باوثوق روایات کو پڑھے اور معتبر کتابوں سے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب اور مصائب کو حاصل کرے۔ خطیب کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی روایت کو بیان کرے کہ جس میں مذہب یا امام حسین علیہ السلام کی توہین کا پہلو موجود ہو اور بہتر یہ ہے کہ روایات کے ساتھ کتاب کا حوالہ دے تاکہ اس روایت کی مسؤلیت صاحبِ کتاب کے ذمہ ہوجائے اور آپ نقل کرنے کی مسؤلیت سے آزاد ہوجائیں ۔

5۔ خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ کربلا کے واقعات کو بیان کرے اور سانحہ کربلااور احکام دین مثلا نماز ، روزہ، حج ، زکوۃ ، خمس ، جہاد وغیرہ کے درمیان موجود ربط اور تعلق کو لوگوں کے سامنے سید الشہداء علیہ السلام اور ان کے اصحاب یا ائمہؑ سے مروی کلمات کے ذریعے بیان کرے ۔مثلا امام حسین علیہ السلام کا یہ فرمان کہ جس میں آپؑ فرماتے ہیں:

’’ أ لاَ تَرَونَ أنَّ الحَقَّ لا يُعمَلُ بهِ ، و أنَّ الباطِلَ لا يُتَناهى عَنهُ ، لِيَرغَبِ المُؤمنُ في لِقاءِ اللّه ِ مُحِقّا ․․․․․․․․․‘‘

یعنی:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جارہا ہے تاکہ مومن خدا تعالیٰ سے حقیقی ملاقات کا مشتاق ہو․․․․․․․․․․․․․․․․․

اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی پڑھا جاسکتا ہے کہ جو انھو ں نے اپنے نانا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو الوداع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’ اللھم انی احب ان آمر بالمعروف و انھٰی عن المنکر․․․․․․․․‘‘

یعنی: اے میرے اﷲ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو دوست رکھتا ہوں․․․․․․․․․․․․․․․․۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .