عشق حیدر کی یہ سزا ہے کیا؟
پرخچے روز جو اُڑاتے ہو
ہم شہیدوں کے ہیں قبیلے سے
تم یزیدی ہو یہ بتاتے ہو
کب رہی ہم کو خلعتوں کی طلب
ہم نے کب خواہش حکومت کی
کب علیؑ نے علیؑ کے بیٹوں نے
سر جھکایا ہے اور بیعت کی
سوچتے ہو کہ ان پٹاخوں سے
ہم کو وحشت زدہ کروگے تم
گردنیں کاٹ کر جوانوں کی
ہم کو دہشت زدہ کروگے تم
ہم تو لاشیں اٹھاکے مقتل میں
سجدۂ شکرِ رب بجا لائے
لاش کڑیل جوان بیٹے کی
اپنی آغوش میں اٹھا لائے
نصرت حق میں باندھ کر کمریں
کروٹیں لی ہیں رات بھر جاگے
لائے کب لشکروں کو خاطر میں
کب کسی معرکے سے ہم بھاگے
ہم کو مرنے سے کیا ڈراتے ہو
موت تو زندگی کا زیور ہے
ہم جئیں اور ذلتیں سہہ کر!
فخر سے سر کٹا دیں بہتر ہے
ہم نے پاراچنار کے رن میں
عزتِ دیں کو ارجمند رکھا
خواہ غزّہ ہویا کہ شام و عراق
پرچم حق کو سربلند رکھا
شاعر اہل بیت (ع)؛ عادل فراز