۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
پاکستان

حوزہ/ سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ "اہل غزہ کی قربانیوں، جرأت اور استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں"۔ انہوں نے اپنے بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسرائیل فلسطین اور لبنان کے مسلمانوں کی نسل کشی کے ہر حربے کا استعمال کر رہا ہے، جبکہ امت مسلمہ کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ڈاکٹر حمیرا طارق، سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان، نے کہا ہے کہ "اہل غزہ کی قربانیوں، جرأت اور استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں"۔ انہوں نے اپنے بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسرائیل فلسطین اور لبنان کے مسلمانوں کی نسل کشی کے ہر حربے کا استعمال کر رہا ہے، جبکہ امت مسلمہ کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر حمیرا طارق نے یہ خیالات 7 اکتوبر کو اہل فلسطین سے قومی اظہار یکجہتی کے حوالے سے پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی رواں ہفتے اہل فلسطین و لبنان سے یکجہتی کے طور پر مختلف تقریبات کا انعقاد کر رہی ہے، جن میں فیصل آباد، کراچی اور اسلام آباد میں "غزہ ملین مارچ" شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مارچ قومی یکجہتی فلسطین کی ایک کڑی ہے اور اس کے لیے جماعت اسلامی اور برادر تنظیمات کے کارکنان کی انتھک محنت کو سراہا۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں سے نکلیں اور پوری دنیا کو بتا دیں کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا نے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے مشترکہ احتجاج کے لیے پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے، اور الحمداللہ آج پورے پاکستان کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں دنیا کا سب سے اہم مسئلہ غزہ ہے، جہاں اسرائیل کی بدترین دہشت گردی کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر حمیرا طارق نے کہا کہ غزہ میں 50 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 30 ہزار بچے اور خواتین ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے سکولوں، خیمہ بستیوں، مساجد، اور گرجا گھروں سمیت تمام عمارتوں کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے، اور ہزاروں نعشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے دیگر معمولات کے ساتھ ساتھ اپنے فلسطینی بھائیوں، بہنوں، اور بچوں کی آواز بنے۔

ڈاکٹر حمیرا طارق نے یہ بھی کہا کہ امت کا اتحاد اور ایک جسم کی مانند ہونا ہی دشمن کو شکست دے سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاموش رہنے سے بچ جائیں گے تو انہیں واضح رہے کہ کسی کو اسرائیل سے دوستی یا ساز باز کر کے نجات نہیں ملے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .