حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ دہلی، حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد علی محسن تقوی نے قم المقدسہ میں حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ حالات حاضرہ پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس ملاقات میں مختلف موضوعات پر ان کے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات آج کے زمانے میں کس طرح لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں ؟
اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے انسانیت کو صحیح معنی میں سچا درس ملے گا اور انسانیت کو فروغ ملے گا، اسی سے انسان اپنے صحیح اور واقعی کمالات کو حاصل کر سکے گا، دنیا امن کا گہوارہ بنے گا ،دنیا اپنے مقصد کو بغیر کسی مزاحمت کے حاصل کر سکے گی، صرف اور صرف اہل بیت علیہم السلام ہی کا بتایا ہوا راستہ ہے یہ جو اس سلسلے میں انسان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔
نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے عملی اور موثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں ؟
ایک طریقہ منبر ہے جو کہ ہمارے یہاں روایتی طریقے سے چلا آرہا ہے، مجالس عزا بہت حد تک اس سلسلے میں کامیاب ہیں، بشرطیکہ اس میں کچھ ا شرائط کی رعایت ہو، اس کے علاوہ مجلات یا اور دوسرے روزنامے ہیں، اس سلسلے میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے سے اور ایرانی سائٹس کے ساتھ جو رابطہ کرنے کی نوجوان کوشش کر رہے ہیں اس کے بہت اچھے نتائج نکل رہے ہیں جو ہے وہ ہمارے سامنے آ رہے ہیں، دنیا میں اس وقت کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی حقیقت سے ہمیں ایران نے ہمیں واقف کرایا ہے کہ دنیا کی صورتحال کیا ہے۔ جو فریب کاریاں اور پروپیگنڈے جو دشمنان اسلام کی طرف سے ہو رہے ہیں اس کا بھرپور اور صحیح جواب بغیر ایران کی طرف دیکھے ہوئے ممکن نہیں ہے۔
مکمل تصاویر دیکھیں:
سیریا کی صورتحال نوجوانوں کے لیے سمجھنا واقعاً مشکل ہو رہا تھا ، یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ سیریا کے اندر شیعہ سنی جنگ ہو رہی ہے اور بشار الاسد اہل سنت کا طاقتور عام کر رہا تھا، اس طرح کی چیزیں یوٹیوب کے اوپر بہت وائرل ہو رہیں تھیں، لیکن ایران سے وابستہ سائٹس کے ذریعے سے اور اسی طرح کے اداروں کی سے وابستگی کی بنا پر صحیح صورتحال نوجوانوں کے اوپر واضح ہوئی، یہ نہایت ہی اچھا قدم ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کے ادارے بھی کوتاہی نہیں کر رہے ہیں، ضرورت کے اعتبار سے لوگوں کو معلومات اور مواد فراہم کئے جا رہے ہیں۔
دور حاضر میں اسلامی معاشرے کو جو درپیش چیلنجز کیا ہیں اور ان کا راہ حل کیا ہےَ نیز علمائے کرام اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک چیلنجز کا تعلق ہے، اس وقت ہندوستان موجودہ وضعیت اگر نظر میں رکھیے تو وہاں چیلنجز کچھ اور ہیں، مثلا آج جس طرح سے اسلام کو اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی کو اور قرآن مجید کو جس طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اب تو ہندوستان کے اندر بات اس سطح کے اوپر اگئی ہے کہ بہت ہی بھونڈی اور بہت ہی غلط اور توہین آمیز قسم کی لینگویج استعمال کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان پھیلا رہے ہیں تاکہ مسلمان بھی جذبات میں آجا ئیں اور اسی طرح کی زبان بولیں تا کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نفرتوں میں اضافہ ہو اور اس نفرت کے اضافے سے وہ اپنے مقاصد کو پورا کر سکیں۔
اس صورتحال میں ان کے اعتراضات اور ان کے اشکالات کا صحیح اور معقول انداز میں،حکمت سے بھرا اورجواب دیا جائے تو بہت بہتر ہوگا، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، ہم نہیں چاہتے کہ نفرت پیدا ہو، جیسا کہ کچھ سیاسی طاقتیں اسی کام میں مصروف ہیں کہ وہاں نفرت پھیلائی جائے اور اپنے مقاصد کو حاصل کیا جائے، بہرحال مسلمانوں کے درمیان اب ایک سمجھ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ جذباتی زبان جو وہ اب تک استعمال کرتے رہے ہیں ان سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، بلکہ اس سے مسائل اور پیچیدہ ہوں گے، ہمیں ہندوستان کے اندر محبت کی زبان استعمال کرنی پڑے گی اور دلیل کے ساتھ اپنے موقف کو رکھنا پڑے گا تاکہ ہم اپنی بات کو دوسروں تک پہنچا سکیں، اس وقت تک یہی ہوا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف، قران مجید کے خلاف، پیغمبر اسلام (ص) بول کر اور صرف افواہیں پھیلا کر صرف اسی طرح کی بے بنیاد چیزیں کہہ کر مسلمانوں کو اذیت دی گئی ہے ۔
ہندوستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے، مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ہر مذہب کی ایک الگ فکر ہے، لہذا ان کے درمیان اتحاد اور ہماہنگی کیسے پیدا کی جائے، علمائے کرام کی اس سلسلے میں کیا ذمہ داریاں ہیں؟
ہندوستان مذاہب کا ایک میوزیم کہلاتا ہے، تو صورتحال ہندوستان کی بہت پہلے سے اور ہمیشہ سے رہی ہے، ہندوستان مذاہب کا گہوارہ رہا ہے، بہت سے مذاہب یہاں موجود رہے لیکن آج تک مذاہب کے درمیان اختلافی صورتحال نہیں پیدا ہوئی تھی، اب جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ کچھ سیاسی قوتیں کر رہی ہیں، جو مذہب کا نام لے کے اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے کے لیے منصوبے بنا رہی ہیں، مثلا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جو فسادات ہو رہے ہیں حتی کہ انگریزی دور کے اندر بھی اتنے فسادات نہیں ہوئے۔
اب اس موجودہ صورتحال میں علماء کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کے حالات نے ہمیں سب کچھ سمجھا دیا ہے کہ اب ہمیں کس نہج پر قدم رکھنا چاہئے اور ہمیں کس انداز سے آگے بڑھنا چاہیے، اور دشمن کا مقابلہ کس طرح سے کرنا چاہیے، برادران اہل سنت میں بھی اور شیعوں میں بھی یہ شعور آگیا ہے، بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ علماء کی اہم ذمہ داری ہے ۔
آپ کا تبصرہ