حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، موئسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ اور جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے اشتراک سے گزشتہ روز، قم المقدسہ میں ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع "اربعینِ حسینی: انقلابی تحریکوں کی تربیت گاہ، امام خمینیؒ کے عاشورائی افکار کی روشنی میں" تھا۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا، جس کی سعادت حجۃ الاسلام حافظ محمد علی نے حاصل کی، جبکہ بارگاہِ امام حسینؑ میں سلام پیش کرنے کی سعادت جناب مولانا محمد حسین ذاکری نے حاصل کی اور نظامت کے فرائض جناب مولانا محمد سجاد شاکری (جنرل سیکریٹری جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان) نے انجام دئیے۔

مولانا محمد سجاد شاکری نے اپنے مقدماتی کلمات میں شرکاء، طلاب اور علمائے کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے موئسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ اور اس کے منتظمین کی خدمات کو سراہا اور امام خمینیؒ کے افکار کی روشنی میں تحریکِ حسینیؑ اور تحریکِ خمینیؒ کے درمیان گہرے تعلق اور ربط پر گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ امام خمینیؒ کے فرمان کے مطابق، تحریکِ حسینیؑ نے اسلام کو زندہ کیا اور انقلابِ خمینیؒ کی کامیابی کی اصل وجہ تحریکِ حسینیؑ کو نمونۂ عمل قرار دینا ہے۔ یوں انقلابِ خمینیؒ احیاگر انقلابِ حسینیؑ ہے اور انقلابِ حسینیؑ احیاگر اسلام ناب محمدیؐ ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے استاد حوزہ حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ قرآن تعلیماتِ الہٰی کا مجموعہ ہے، جبکہ سنت، تعلیماتِ نبویؐ کا مجموعہ ہے؛ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر اسلام کا پورا نظریہ اور زندگی کا وہ نظام پیش کرتے ہیں جس کی پیروی ہر مسلمان پر ضروری ہے۔
انہوں نے امام خمینیؒ کے وصیت نامے میں سنت کے بجائے عترت کے استعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ عترت وہ مقدس ہستیاں ہیں، جن سے سنت پیغمبر ﷺ کی صحیح اور یقینی تعلیمات حاصل ہوتی ہیں۔ لہٰذا عترت اور سنت کے مابین کوئی تضاد نہیں، بلکہ عترت سنت تک پہنچنے کا مطمئن اور محفوظ راستہ ہے۔

حجۃ الاسلام رئیسی نے امام خمینیؒ کے وصیت نامے کے مندرجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امامؒ کے مطابق، قرآن و عترت پر اتنا ظلم ہوا ہے کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
انہوں نے قرآن پر ظلم کی ایک بڑی مثال حدیث کی کتابت پر عائد پابندی کو قرار دیا، جس کی وجہ سے امت ِ پیغمبر، قرآن کی نبوی تفسیر اور تشریح سے محروم رہی۔
حجۃ الاسلام غلام عباس رئیسی نے امام حسینؑ کی عظیم قربانی کو ایک اہم تاریخی تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ بنی امیہ نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو نظر انداز کر کے جاہلیت کے دور کو دوبارہ زندہ کیا اور یزیدیت کے فلسفے کو مسلط کرنے کی کوشش کی، جس کے خلاف امام حسینؑ نے کربلا میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔

انہوں نے قرآن و عترت کو ایک ناقابلِ تفریق نظام قرار دیا اور کہا کہ امام حسینؑ کے سر اقدس کی نوک نیزہ پر قرآن کی تلاوت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر عترت کا سر نوک نیزہ پر بلند ہوا تو قرآن بھی اس کے ساتھ نوکِ سناں پر ہے۔
امام سجادؑ کے کلمات کے حوالے سے بیان کیا کہ خداوند عالم نے اہل بیت کے دشمن کو احمق خلق کیا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اہل بیتؑ کو گرفتار کر کے امت کو یہ غلط پیغام دینا چاہتا تھا کہ یزید کے مقابلے میں آنے والا آلِ رسولؐ ہو تو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ عام امتی کی تو بات ہی نہ کریں، مگر اہل بیتؑ نے اپنی حکمت اور صبر سے کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں کو فتح کر کے یزید کی حماقت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔
حجۃ الاسلام رئیسی نے انقلابِ اسلامی ایران پر کربلا اور تحریکِ امام حسینؑ کے گہرے اثرات کو اجاگر کیا اور کہا کہ انقلاب کی کامیابی کی بنیادی وجہ امام حسینؑ کی عزاداری ہے۔ امام خمینیؒ نے عاشوراء کو انقلاب کی روح اور مقصد قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ کربلا اور انقلابِ اسلامی کے درمیان گہرا اور مستحکم رابطہ ہے جس نے انقلاب کو نہ صرف کامیاب کیا، بلکہ ہر طرح کے سخت حالات میں بھی استقامت بخشا۔ 46 سال کے بعد بھی انقلاب کی کامیابی اور رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای کی ثابت قدمی کی اصل وجہ یہی عزاداری اور تحریکِ عاشوراء ہے، جس کی بدولت رہبرِ انقلاب دشمن کے سامنے بغیر خوف اور ہچکچاہٹ کے کھڑے ہیں اور ان کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔
پروگرام کے اختتام پر موئسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کی جانب سے تمام شرکاء میں امام خمینیؒ کی دو نفیس کتابیں تقسیم کی گئیں۔









آپ کا تبصرہ