حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق معروف شیعہ عالم دین امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی کی سربراہی میں ایک وفد نےشمال مشرقی دہلی کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔اس دورے کے بعد مولانا کلب جواد نقوی نے ایڈوکیٹ محمودپراچہ کے ساتھ فساد زدہ علاقوں کے جو حالات بیان کئے اس سے بہت سے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو ابھی تک پردے میں ہیں۔فسادزدہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد مولانا نے درگاہ شاہ مرداں میں پریس کانفرنس سے خطاب کرکے حکومت کے رویے اور شرپسند عناصر کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
مولاناکلب جواد نقوی نے فسادزدہ علاقوں کے دورے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم نےفساد زدہ علاقوں کے جو حالات دیکھے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں ۔انہوں نے کہاکہ جس مسجد میں آگ لگائی گئی ہے اس کے آس پاس ہندوآبادی نہیں ہے، پتہ یہ چلاہے کہ پولیس والوں نے خود مسجد کا دروازہ توڑ ا اور مسجد میں آگ زنی کی ۔ پولیس نے ہی وہاں گولی باری بھی کی جس میں کئی لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔مولانانے کہاکہ مدرسوں میں اور گھروں میں فسادیوں کے ساتھ پولیس نے بھی آگ زنی کی یہ حیرت ناک اور قابل مذمت ہے ۔اول تو پولیس فساد کی اطلاع کے بعد بھی گھنٹوں موقع پر نہیں پہونچی اور جب پہونچی تو متاثرین کی مدد کے بجائے شرپسند عناصر کے ساتھ پولیس نے مل کر عوام کا جانی و مالی نقصان کیا ۔اس سے واضح ہوتاہے کہ پولیس کو کچھ نہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔اگر حکومت نے اس پر کاروائی نہیں کی تو یہ سرکار کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی ۔مولانانے کہاکہ تمام میڈیا اور حکومت کے لوگ ایک شخص طاہر حسین کے پیچھے پڑے ہیں ۔کیا اتنا بڑافساد ایک شخص کرواسکتاہے ؟۔ طاہر حسین کے سر فساد کا ٹھیکرا پھوڑکرسرکار اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور کچھ شرپسند وں کو بچانا چاہتی ہے ۔
در اصل یہ بی جے پی حکومت کا اسٹیٹ اسپانسرفساد تھا جس میں اب شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ فساد حکومت نے ہی پوری پلاننگ کے ساتھ کرایاہے ۔اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم اس پورے معاملے میں سخت قدم اٹھائیںاورمجرموں کے خلاف کاروائی کریں ۔مولانانے کہاکہ مسجدوں میں گھس کر آگ زنی کی گئی ،قرآن جلایا گیا اور مقدس چیزوں کی بے حرمتی کی گئی ۔یہ مسجدوں پر جو آگ زنی کی وجہ سے کالے دھبے ہیں در اصل حکومت کے منہ پر کالے دھبے ہیں ۔یہ کام ہندئوئوں نے نہیں کیا بلکہ پولیس اور آرایس ایس کے لوگوں نے آگ لگائی تھی۔مولانانے کہاکہ یہ پلاننگ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف چل رہے احتجاجات کو ہٹوانے کی تھی ،اسی لئے اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں ،جس میں کپل مشرا اور دوسرے لوگ پیش پیش تھے جس کے بعد پوری پلاننگ کے ساتھ فساد کروایا گیا۔
مولانانے کہاکہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے وقت ہی دہلی میں فساد رونما ہوا؟۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ بی جے پی اندر سے دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ایک بی جے پی کے لوگ ہیں اور دوسرے آرایس ایس کے تربیت یافتہ افراد ہیں اور دہلی فساد میں سرکار کے ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو آرایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ فساد دہلی اسٹیٹ مشینری نے کرایاہے ۔ سرکار جانچ کراکر بتائے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ فساد کرایا اور ان کا مقصد کیا تھا؟۔
مولانا نے میڈیا سے خطاب کرتےہوئے کہاکہ پولیس نے فساد میں دو طرح کی بندوقوں کا استعمال کیاہے۔سوال یہ ہے کہ ایک پولیس والے کے پاس دوطرح کی بندوقیں کیوں تھیں؟۔ان کے پاس ایک بندوق سرکاری تھی اوردوری بندوق غیر قانونی تھی جس کا فساد میں استعمال ہواہے۔مولانانے کہاکہ ہم فسادزدگان کو انصاف دلانے کے لئے قانونی لڑائی لڑیں گے ۔اس کے لئے ہم نے ایڈوکیٹ محمود پراچہ کی نگرانی میں ایک لیگل ٹیم بنائی ہے جو لوگوں کو انصاف دلانے کا کام کرے گی ۔ساتھ ہی جو لوگ غائب ہیں ان کے سلسلے میں عدالت میں مقدمہ درج کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے سینیر وکیل محمود پراچہ نے کہاکہ دہلی کا فساد پوری پلاننگ کے ساتھ کرایا گیاہے جس میں بے گناہوں کی جانیں گئیں اور مالی نقصان ہوا۔انہوں نے کہاکہ پولیس نے اس پورے معاملے میں ایک پارٹی کی طرح کام کیا اور پولیس کی گولی لگنے سے لوگوں کی جانیں گئیں۔اس لئے ہم یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہم پولیس کے اعلیٰ افسران ،ڈی سی پی ،اور دیگر پولیس کے افسروں پر مقدمہ دراج کریں گے اور ان کو سزا دلواکر رہیں گے ۔
اس وفد میں مولانا سید کلب جواد نقوی کے ساتھ ایڈوکیٹ محمود پراچہ ،بہادر عباس،انجمن حیدر ی کے اراکین اور دیگر افراد شامل تھے۔