۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا سید فضل عباس زیدی

حوزہ/حجت الاسلام والمسلمین سید فضل عباس زیدی نے ھندوستانی حوزات علمیہ میں ورچوئل یا اوپن ایجوکیشن کے فقدان کا گلہ کیا اور کہا امکانات نہ ہونے کی باوجود آن لائن کلاسوں کے چلانے اور دروس قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ ایمانیہ ناصریہ کے استاد حجت الاسلام والمسلمین سید فضل عباس زیدی نے کرونا کے ایام میں ھندوستانی مدارس اور طلاب کی مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ امکانات نہ ہونے کی باوجود آن لائن کلاسوں کے چلانے میں اپنی تمام توانائی صرف کی گئی تاکہ دروس کا سلسلہ قائم رہے اور طلاب کا زیادہ علمی نقصان نہ ہونے پائے ۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پورے ملک میں کورونا پھلنے اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے لاک ڈاون کے اعلان کی وجہ سے مدارس کے پرنسپل حضرات مدرسوں کو بند کرنے پر مجبور ہوئے کہا کہ لاک ڈاون کے طولانی ہونے اور مدارس میں ورچوئل یا اوپن ایجوکیشن سیسٹم نہ ہونے کی وجہ سے طلاب کا بہت زیادہ علمی نقصان ہوا۔

حوزہ علمیہ ایمانیہ ناصریہ کے استاد نے موجودہ مشکلات کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ھندوستان میں بینکینگ اور الیکٹرانک پیمنٹ سیسٹم ترقی یافتہ ہونے کے باوجود اج بھی طلاب کے وظیفے قدیم سیسٹم سے ادا کئے جاتے ہیں اور بلا کر ان کے ہاتھوں میں تھمائے جاتے کہ جو ہمیشہ طلاب کے لئے مشکل ساز رہا ہے۔

انہوں نے گذشتہ چھار ماہ کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاون میں متعدد طلاب کی آن لائن دروس میں عدم شرکت کی بنیاد، سیم کارڈ اور انٹرنیٹ پیکیج خریدنے کے حوالے سے بیشتر گھرانوں کی عدم توانائی بتایا اور کہا: علماء ھندوستانی معاشرہ کی کمزورترین صنف ہیں، اس حوالے سے چھوٹی سے چھوٹی وجہ بڑا سے بڑا اور زیادہ سے زیادہ تباہ کن نقصان، پیدا دیتی ہے البتہ کچھ چہرے اس سے مستثنی ہیں۔

سرزمین ھندوستان کے برجستہ عالم دین نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم نے سخت اور انتھک کوشش کر کے طلاب کے سیم کارڈ، انٹرنیٹ پیکیج اور دیگر موصلاتی اخراجات فراھم کرنے کی کوشش تاکہ طلاب کے دوش پر موجود کچھ مشکلات کم کرسکیں اور انہیں درس و مباحثہ کی دنیا میں لوٹا سکیں کہا: ھندوستان کے حوزات علمیہ رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای و سیستانی ، مراجع تقلید عظام قم و نجف نیز ایرانی حوزات علمیہ کے سربراہ ایت اللہ علی رضا اعرافی و جامعۃ المصطفی العالمیہ کے سربراہ ڈاکٹر عباسی کی خاص توجہ کے نیازمند ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ھندوستان کے حوزات علمیہ کے درمیان کنیکٹینگ یا ون اسپیس سیسٹم کے فقدان نے تعلیمی نظام کو بہت زیادہ نقصان پہونچایا ہے کہا: ھندوستانی مدارس کے مدیر اور پرنسپل حضرات کورونا کو خطرے کی گھنٹی یا بیداری کا الارم کے عنوان سے دیکھیں اور مدارس کے درمیان کنیکٹینگ یا ون اسپیس سیسٹم کے قیام کی کوشش کریں۔

حجت الاسلام زیدی نے مدارس کے پرنسپل، علماء اور دینی رھبروں کے ذریعہ شیعہ مدارس ایڈمنسٹریشن کے قیام کی درخواست کی اور کہا: لاک ڈاون ، کورونا اور اس کے بعد کے حالات کے حوالے سے مدارس کے مدیروں کا اجلاس منعقد ہونا لازمی ہے تاکہ لاک ڈاون اور کرونا نیز اس کے مشابہ حالات میں رونما ہونے والے مسائل و مشکلات پر غور و فکر ہوسکے نیز کورونا کے بعد تعلیمی نظام اور طریقہ کار پر گفتگو ہو۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ زیادہ تر ھندوستانی مدارس میں مدیریت ذاتی سلیقہ اور ذاتی نظریہ پر استوار ہے نیز مدارس کے درمیان جامع اور مشترکہ سیسٹم موجود نہیں ہے کہا: امید ہے کہ کورونا مدارس کے مدیروں کی بیداری کا سبب ہوگا، حوزہ علمیہ قم نے کورونا کے آغاز ہی میں آن لائن دروس کا پروگرام شروع کیا مگر ھندوستان کے مدارس مکمل نیند میں رہے کہ جس نے طلاب کو کافی علمی نقصان پہونچایا ہے۔

حوزہ علمیہ ایمانیہ ناصریہ کے استاد نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا مستقبل قریب میں مدارس کے کھلنے کا امکان ہے کہا: مدارس کے کھلنے یا نہ کھلنے کا اختیار پرنسپل حضرات کو ہے، مگر موجودہ حالات تشویشناک ہیں ، کلاس روم، ہاسٹل اور مدرسہ کی بیلڈنگ میں صحت کے اصولوں کے بنیادی لوازمات کا فقدان ہے کہ جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے آخر میں یاد دہانی کی: کورونا وائرس نے عوام کا طرز حیات بدل کر رکھدیا ہے، کورونا نے لوگوں کے مذھبی و دینی طور طریقہ پر اثر ڈالا ہے، مسجدیں مقفل ہیں اور اجتماعی عبادتوں کے پروگرام و مراکز بند ہیں، غسل و کفن و نماز جنازہ و دفن محدود طریقہ سے اور بغیر رشتہ داروں، احباب و مومنین کی شرکت میں انجام پارہا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ حجت الاسلام و المسلمین سید فضل عباس زیدی کا تعلق سرزمین پھندیڑی سادات سے ہے، آپ ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، اپ کے جد امجد عالم دین اور والدین کو دینی امور سے کافی لگاو رہا، والد محترم کافی عرصہ تک مکتب امامیہ کے ذمہ دار تھے اور ماہ محرم و صفر میں مجالس امام حسین(ع) کو اچھے سے اچھے انداز میں برپا کرنے میں کوشاں رہتے، والدین کی خواہش پر نوجوانی میں وطن چھوڑ کر لمبی مسافت طے کرنے بعد شھر لکھنو پہونچے اور وہاں مدرسہ جامعۃ التبلیغ میں ایڈمیشن لیا، ایک مدت تک با صلاحیت استاذہ کے سامنے زانو ادب تہ کیا اور ادبیات عرب و منطق جیسے علوم پر عبور حاصل کر کے اساتذہ اور حلقہ احباب میں اعتبار کسب کیا، بہتر اساتذہ کی تلاش نے حوزہ علمیہ ایمانیہ شھر بنارس پہونچا دیا جہاں نباض ادب استاذ الاستاذہ ماہر فن ادبیات و فقہ و اصول و فلسفہ و کلام حضرت ایت اللہ سید محمد حسینی طاب ثراہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملا اور ان سے بخوبی استفادہ کر کے حوزہ علمیہ قم میں داخلے کے لئے آنے والے اینٹرنس گروپ "ھیئت اعزامی" کے امتحان میں شرکت کی، امتحان کی سنگینی اور بہت سارے سینئرس کے کئی بار فیل ہونے کی خبروں کے باوجود الحمد للہ پہلی ہی فرصت میں پاس ہونے والوں کی فہرست میں نام ایا جو ان کے لئے ہی نہیں بلکہ مدرسہ کے لئے بھی باعث فخر و مباحات تھا۔

حوزہ علمیہ ایمانیہ کی طلبگی کے دوران تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک مشاق ذاکر و خطیب اہل بیت علیھم السلام کے عنوان سے بھی شناخت بنائی اور کئی برسوں تک لگاتار حیدر نگر جپلا پلامو کے ممبر پرعشرہ اولی میں ذکر فضائل و مصائب آل محمد(ع) کا شرف حاصل ہوا۔

اکتوبر سن ۱۹۹۲ عیسوی میں سرزمین قم پر اعلی تعلیم کے حصول میں قدم رکھا اور سن ۲۰۰۰ عیسوی تک قیام کے دوران ۸ سال کی مدت میں مختلف موضوعات کے ماہر استاذہ سے کسب فیض کیا اور پھر علمی توانائی کے جزبہ آزمائش نے انٹرنیشنل مدرسہ بورڈ " سازمان مدارس خارج از کشور" کے سخترین امتحان، جس میں خود کو گنانے والوں کے بھی قدم اکھڑ گئے، سے اعتماد کے ساتھ گزر کر فریضہ تدریس کے لئے حوزہ علمیہ ایمانیہ بنارس پہونچے تین سال تک وہاں تدریس کی اور پھر حوزہ علمیہ ایمانیہ ناصریہ کے پرنسپل حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا محفوظ الحسن صاحب کی محبتیں حوزہ علمیہ ایمانیہ ناصریہ کی مسند تدریس تک کھنیچ لائیں جہاں آج تک سرکاری مدرس کے عنوان سے علوم ال محمد(ع) کی تدریس میں مصروف ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .