محمد رضا ۔متعلم مدرسہ شھابیہ (حوزہ علمیہ،قم ایران)
حوزہ نیوز ایجنسی । حوزۂ علمیہ اس علمی اور روحانی مرکز کو کہاجاتا ہے جہاں طلاب علوم دینیہ کو زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جاتا ہے۔یہ مراکز ائمہ علیہم السلام کے بہت زمانے بعد اپنے اصلی اور ظاہری وجود میں دنیا کے سامنے آئے۔قم ،بغداد،نجف،حلّہ،اصفہان کا شیعوں کے اہم ترین حوزہھای علمیہ میں شمار ہوتا ہے۔یہ تمام حوزات علمیہ مراجع کرام کی نگرانی میں چلتے ہیں۔ان حوزات میں احکام شریعت کو قرآن واحادیث سے استخراج کرنے کے اسلوب اور طریقے سیکھائےاور پڑھائے جاتے ہیں۔فقہ واصول حوزات علمیہ کے اساسی ترین مضامین میں شمار کئے جاتے ہیں۔حوزات علمیہ میں طلاب کرام کی جیب خرچی دیگر رقومات شرعیہ سے پوری کی جاتی ہے۔ان حوازت میں طلاب روحانیت کا لباس زیب تن کرکے زیور علم سے اپنے آپ کو مزین کرتے ہیں ۔حوزہ ٔ علمیہ کےدروس ،حوزات،مدارس،مساجد ،مراقد مطہرہ ،حرم مقدسہ اور روحانی لوگوں کے پاکیزہ گھروں میں پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں۔
انقلاب اسلامی کے کچھ سالوں بعد ایران کا حوزہ ،حوزۂ علمیہ کی صورت میں پہچانا جانے لگا۔اور دھیرے دھیرے ایران کے مختلف علاقوں میں خواتین کے لئے بھی مدارس علمیہ کھولے گئے۔
بعض افراد سورہ ٔاحزاب آیت ۳۹ (الذین یبلغون رسالات اللہ ۔۔۔)کو ان حوزات علمیہ کی تشکیل کی بنا سمجھتے ہیں۔اور صاحب فہم وتفقہ علماء دین کے معنیٰ کو آیۂ نفر سے اخذ کرتے ہیں۔
وہ افراد جو حوزات میں مشغول تحصیل وتدریس ہوتے ہیں ان کو مختلف القابات سے پکارا جاتا ہے :شیخ ،آخوند ،ثقۃ الاسلام،حجت الاسلام ،حجت الاسلام والمسلمین،آیت اللہ،آیت اللہ العظمیٰ۔(۱)
حوزہ کی تاریخ
سب سےپہلا حوزہ مکہ مکرمہ اور مدینہ مشرفہ میں قائم کیا گیا۔مدینہ کا حوزہ علمیہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی مرکزیت حاصل کرچکاتھا۔مگر امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میںاس کا باقاعدہ شکل وجود آئی۔جس میں بیک وقت امام جعفر صادق علیہ السلام ۴ہزار شاگردوں کو درس دیا کرتے تھے۔اس وقت کوفہ کا شمار ان شہروں میں ہوتا تھا جہاں کی مسجدوں میں درس تدریس کی نشستیں منعقد کی جاتی تھیں۔چونکہ مسجدوں کے ہمسائگان اپنےگھروں میں بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے اور پھر دھیرے دھیرے یہ گھر مدارس اور حوزات کی شکل میں تبدیل ہوتےگئے۔(۲)
حوزۂ علمیہ قم
تاریخی منقولات کی روشنی میں دوسری صدی ہجری کے اوائل میں اشعری شیعوں کے شہر قم کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے قم کے مسلمان آبادی والے شہر شیعہ نشین شہروں میں تبدیل ہوگئے۔لوگ ائمہ علیہم السلام سے حدیثیں بیان کرنے والے محدثین سے علمی بحث ومباحثہ کیا کرتے تھے اور ان علمی جلسوں کا سلسلہ یوں ہی دوسری صدی ہجری سے چوتھی صدی ہجری تک جاری وساری رہا ۔
اس زمانہ میں شہر قم کا زیادہ تر رجحان حدیث کی طرف تھا۔اور اس حوزہ نے بہت سے محدثین کی تربیت کی ۔من جملہ ان میں
سے زکریا ابن آدم،اسحاق بن عبداللہ اشعری،سہیل ابن یسع اشعری کانام سر فہرست آتاہے۔من لایحضرہ الفقیہ انھیں علمی دوروں کا ماحصل ہے۔لیکن حوزۂ علمیہ نجف اشرف کے روح رواں شیخ مفید ؒ کی عقلی بحثوں اور مختلف متکلمین کے دورس اور کتابوں کے سامنے حوزۂ علمیہ قم کمزور پڑگیا۔(۳)
حوزۂ علمیہ بغداد
دوسری صدی ہجری کے آخر میں بعض ائمہ علیہم السلام کے وجود مقدس کی برکت اور بعض نواب اربعہ کی علمی اور دینی خدمات نے بغداد کو علمی مراکز اور گہوارۂ درس وتدریس کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔اس کے بعدابن جنیدؒ،شیخ مفیدؒ،سید رضیؒشیخ طوسی جیسے جید اور باکمال علماء کے وجود سے حوزۂ علمیہ بغداد دن بہ دن ارتقائی منزلیں طے کرتا رہا
اس زمانے میں امامت کے پیچیدہ مسائل،زمانۂ غیبت کے ابتدائی دور اور فرقۂ اشاعرہ ومعتزلہ کے عالم وجود میں آنے کی وجہ سے کلامی بحثیں اپنی معراج پر تھیں۔تصحیح الاعتقادات اور تنزیہ الانبیاء کا اس زمانہ کی معرکۃ الآراء کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔
پھر ۴۴۷ھ میں ارطغرل سلجوقی کی آمد نے بغداد کی سرزمین کو اور بھی زیادہ منور معزز کردیا۔(۴)
حوزۂ علمیہ نجف
بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں شیخ طوسیؒ کے وجود ذی جود سے پہلے حرم امیرالمومنینؑ ہی درس وتدریس کا مرکز تھا۔لیکن چوتھی صدی ہجری میں ارطغرل کے بغداد آجانے کی وجہ سے شیخ طوسیؒ نجف کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئےاور پھر ان کے علمی خدمات کی وجہ سے حوزۂ علمیہ نجف اشرف کے قدموں میں مزید استحکام آگیا ۔جس کے بعد نجف اشرف پوری دنیا میں مرکز تشیع اور حوزۂ علمیہ کے نام سے پہچانا جانے لگا۔التھذیب اور الاستبصار اسی زمانے کی معرکۃ الآراء کتابیں ہیں کہ آج جن پر اسلامی علوم اور احکام شریعت کی بنیادیں استوار ہیں۔
شیخ طوسیؒ کی وفات حسرت آیات سے ہی حوزۂ علمیہ نجف اشرف کے زوال کی ابتدا ہوگئ۔(۵)
حوزۂ علمیہ حلّہ
چھٹی صدی ہجری میں اس حوزۂ علمیہ کی بنیاد رکھی گئی ۔اور چھٹی صدی ہجری سے لیکر آٹھویں صدی ہجری تک شیعوں کے معتبر حوزات میں شمار کیا جا تا رہا۔ابن ادریسؒ،ابن نماؒ،محقق حلیؒ،علامہ حلیؒ اور فخر المحققین حوزۂ علمیہ حلّہ کے مایہ ناز علماء میں سے تھے۔اس حوزہ نے مختلف بادشاہوںا ور صاحب اقتدار حکمرانوںکے آپسی تنازعات کی وجہ سے اپنی عزت اور وقار کوگم کر دیا۔(۶)
حوزۂ علمیہ اصفہان
نویں صدی ہجری اور صفوی دور میں عثمانی حکومت میں شیعوں کے اوپر کثرت سےظلم ہونے کی وجہ سے جبل عامل سے بعض شیعہ علماء نےایران کی طرف ہجرت کی اور حوزۂ علمیہ اصفہان کی بنیاد ڈالی۔
محمد تقی مجلسیؒ،شیخ بہائیؒ،میر دامادؒ،میر فندرسکیؒ،ملاصدراؒ اور محقق کرکیؒ کااس زمانے کے نابغہ روزگارعلماء میں شمار کیا جاتا ہے۔اسوقت حوزۂ علمیہ اصفہان میں لوگو ں کا حدیث اور فلسفہ کی طرف زیادہ رجحان تھا ۔یہ حوزہ اس زمانے سے لیکر آج تک نشر علوم معارف اہلبیتؑ میں صمیمیت سے مشغول ہے۔اگر اس کے معیار اور وقار میں تھوڑی سی گراوٹ آگئی ہے۔(۷)
آج کا حوزۂ علمیہ قم
آیت اللہ عبد الکریم حائریؒ(۱۳۰۱ھ)میں قم تشریف لائے اور اپنا اثر ورسوخ پیدا کرنے کے بعد اس زمانے میں حوزۂ علمیہ قم کی تعمیر نو کی۔
۱۵ سال کی قم کی زندگی اور روحانیوں کے اوپر حکومتی مظالم اور فشار کے باوجود آیت اللہ حائری ؒ نے حوزۂ علمیہ قم کے طلاب کی تعداد ۱۹۰۰ تک پہونچادی۔
بیسوی صدی شمسی کے دس ابتدائی سالوں میں جب آیۃ اللہ بروجردیؒ نے حوزۂ علمیہ قم کی باگ دوڑ سنبھالی تب کہیں جاکر حوزہ علمیہ نےاپنا عہد زریں دیکھا ۔
انقلاب اسلامی ایران کے بعد حوزۂ علمیہ قم کے طلاب کے اندر ہر پہلو سے بے شمار تبدیلیاں وجود میں آئیں۔(۸)
حوزہ کا نظام تعلیم
پوری دنیا میں حوزۂ علمیہ کے نظام کی ایک جامعیت اور مرکزیت ہے۔یہی تعلیمی نظام ہی در اصل استاد وشاگرد کے مابین ربط وثیق کی حیثیت رکھتا ہے۔
حصول علم کا پہلا قدم کتاب کی عبارت کو صحیح طریقے سے سمجھ لینا ہے۔حوزہ میں اساتذہ کرام کتاب پڑھاتے وقت درس کی گنجلک اور پیچیدہ بحثوں کی وضاحت اس اندازسے کرتے ہیں کہ طلاب کو سمجھنے اور جذب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔(۹)
دوسری جانب حوزہ میں مباحثۃ کی سنت بھی قائم کی گئی ہے کہ طلاب گروہی شکل میںکتابیںلیکر ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور اور استاد کے پڑھائے ہوئے دورس کو دوہراتےہیں ایک دوسرے سے سمجھتے ہیںاور سمجھاتے ہیں جس کی مدد سے درس ان کے ذہنوں میں ایسا منقوش ہوجاتا ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا ۔اور یہ مباحثے ہی طلاب کے اندر تدریسی صلاحیت کو اجاگر کرنےمیں معاون وکارساز ثابت ہوتے ہیں۔ (۱۰)
علوم حوزوی
قرآن واحادیث معصومین علیہم السلام حوزوی علوم کی اساس اوربنیاد ہیں۔فقہ واصول حوزہ کے ضروری مضامین میں شمار کئے جاتے ہیں۔(۱۱)وہیں منطق وفلسفہ،ادبیات،کلام،تفسیر،علوم حدیث اوررجال ودرایہ بھی علوم حوزوی کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔(۱۲)جدید مدارس کی تاسیس سے پہلے حوزوی علوم کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔اجازۂ اجتہاد اور اجازۂ روایت بھی حوزے کے اعلیٰ رتبوں میں شمار کئے جاتے تھے۔(۱۳۔۱۴)
حوزہ کے اساتذہ پہلے از خود کسی درس کو شروع کرتے ہیں ۔پھر طلاب کی خواہش کے مطابق وہ دروس اور اوقات تعلیم کا انتخاب کرتےہیں۔تدریس کی صلاحیت سے ہی علمی مقبولیت طے کی جاتی ہے۔اس لئے کہ طلاب حصول علم میں آزاد چھوڑ دئے گئے ہیں۔
ہفتے میں پانچ دن درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔اور ہفتے کے آخری دودن حوزہ میں تعطیل رہتی ہے۔اسی طرح ایام تبلیغ مثلاً ماہ رمضان المبارک،ماہ محرم الحرام کے ابتدائی دس دن ،ماہ صفر المظفر کے آخری دس دن اور گرمی کے موسم میں بعض حوزات علمیہ میں درسی تعطیلات کی جاتی ہیں۔(۱۵)
حوزہ میں تبدیلیاں
انقلاب اسلامی ایران کے بعد حوزات علمیہ ایران کے نظام میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں،اور کوشش کی گئی کہ ایک نظام تعلیم ایران کے تمام حوزات علمیہ میں جاری کیا جائے۔
حوزہ کے جدید درسی نظام میں دروس حوزہ کو دس حصے میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔اور ہر حصہ ایک سال کا ہوتا ہے۔تمام درجات کو مکمل کرنے کےبعد طالب علم درس خارج میں پہونچ جاتا ہے۔جدید تعلیمی نظام کی درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے:سطح اول،سطح دوم،سطح سوم،سطح چہارم اور ان تما م سطحوں کو مکمل کرنے کے بعدفارغ التحصیل سرٹیفکٹ پاتا ہے۔(۱۶)
۱۳۷۴ ھ میں حوزۂ علمیہ قم کے ذمہ داروں نے ایران کے ایجوکیشن منسٹر سےرائے مشورہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ حوزہ سے فارغ ہونے والے طلاب کو بھی اسناد سے نوازا جائے گا۔(۱۷)
تربیت وتہذیب
روز اول سے ہی تربیت وتہذیب حوزۂ علمیہ کا خاصہ اور مطمع نظر رہاہے۔استاد جب طلاب کو درس پڑھاتا ہے تو علم کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاق اسلامی کی تعلیم بھی دیتا ہے اور طلاب بھی استاد کے اخلاق سے متاثر ہوکر خود کو زیور اخلاق سے آراستہ وپیراستہ کرتے ہیں۔طلاب کے اندر مزید حسن معاشرت،حسن اخلاق اور ان کے نفسوں کی پاکیزگی کو باقی رکھنے اور انھیں آلودگیوں اور گمراہ کن چیزوں کی طرف جانے سے بچنے کے لئے درس اخلاق بھی دئے جاتے ہیں۔
جس وقت آیۃ اللہ حائریؒ قم تشریف لائے حوزہ میں درس اخلاق کا وجود بھی نہیں تھا۔جس کے بعد آپ نے ہی درس اخلاق کا سلسلہ شروع کیا۔اس دن سے آج تک اساتذہ دروس کے آخری دن کچھ دیر کے لئے اخلاقی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔(۱۸)اس درس اخلاق کا مقصد یہ ہے طلاب کو اخلاقی آداب واطوار کی طرف توجہ دلائی جائے جسے اصطلاحی زبان میں ’’زی طلبگی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں بہت سے علماء اور طلباء نے اپنے آپ کو اخلاق اسلامی سے معطر ومزین کرلیا ۔حوزہ میں اخلاق اسلامی کے موضوعات پر مختلف کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔مثلاً:جامع السعادات،معراج السعادۃ اور منھج الرشاد۔(۱۹)
تعلیمی مراکز
ایران کے شیعہ نشین علاقوں میں لوگ محلے کے چھوٹے چھوٹے بچوںکو اپنے گھر پر تعلیم دیتے تھے ۔جس میں مقدمات کو ختم کرنے کے بعد یہ بچے حوزۂ علمیہ کا رخ کرتے ہیں۔مثلاً عصر صفوی میں اصفہان کے حوزہ نے مرکزیت حاصل کی تھی تو طلباء اسی کا رخ کرتے تھے۔(۲۰)پھر نجف اشرف نے تمام حوزات میں نمایاں مقام حاصل کرلیا جس کی وجہ سے طلاب اسی حوزہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آتے تھے۔حوزۂ علمیہ نجف اشرف بھی صدام کی ہلاکت کے بعد دوبارہ اپنی مرکزیت کی راہ پر قدم زن ہے۔(۲۱)
مدارس علمیہ
حوزہ کےتعلیمی نظام میں درس وتدریس کی بہترین جگہ مدرسہ ہے۔ماضی قریب میں تعلیمی مراکز کو مدرسہ کہا جاتاتھا۔لیکن جب آخری صدی میں مدرسہ علوم جدید کی تعلیم کے معنیٰ میں بولا جانے لگا تو دینی مدرسہ کو ’ مدرسہ علمیہ ’‘کہا جانے لگا۔(۲۲۔۲۳۔۲۴۔۲۵)
مساجد
دینی تعلیم کے لئے مساجد سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔مدارس کے ہوتے ہوئے علماء اور مراجع تقلید روحانی اور معنوی ماحول کیوجہ سے مساجد کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔اس وقت حوزہ کے بے شمار دروس ،مساجد میں پڑھائے جاتے ہیں۔(۲۶)
خصوصی مقامات
عمومی مقامات مثلاً مدارس کے علاوہ خصوصی مقامات پر بھی تعلیم وتعلم کی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔خصوصی مقامات میںاستادوں کے گھر وغیرہ شامل ہیں ۔اس لئے کہ جب کوئی طالب علم مدارس کے تعلیمی نصاب میں شامل کتابوں کے علاوہ الگ سے کوئی کتاب پڑھنا چاہتا ہے یا وہ کتاب پڑھنا چاہتا ہے جسے علماء اور حکومت کی جانب سے ممنوع قراردیا گیا ہو تو وہ استاد کےگھر خصوصی طور پر درس پرھتا تھا۔(۲۷)
مذہبی مقامات
متفرق موضوعات کے دروس کو پڑھنے کے لئے مذہبی مقامات کا انتخاب کیا جاتاہے۔ائمہؑ کے حرم،امام زادوں کے حرم،علماء ذوی الاحترام کے مقبرے اور روضے وغیرہ۔اس وقت قم میں مسجد اعظم،مدارس فیضیہ،دار الشفاء اور گلپائگانی دروس حوزوی کی تدریس کے اہم مراکز شمار کئے جاتے ہیں۔(۲۸)
مراجع کرام اورحوزہ کی مدیریت
حوزہ علمیہ کا سب سے بلند ترین درجہ’’ مرجع تقلید‘‘ ہے۔اور اس کی سماجی اور سیاسی اعتبار سے بہت بڑی منزلت اوروقعت ہے۔
ہر حوزہ کسی نہ کسی نظارت کے ماتحت چلتا ہے۔کبھی فرد فرید اس کی نظارت کرتا ہے یا کبھی پورا گروہ (چند مجتہدین یا مراجع تقلید)مل کر اس عظیم ذمہ داری کو انجام دیتے ہیں۔ناظر بہت سے امور کے اوپر نگاہ رکھتا ہے ۔مثلاً مدرسہ،ہاسٹل،شہریہ،استاد،لائبریری وغیرہ ۔
دوسری طرف نظارت تمام امور پر کی جاتی ہے۔مثلاً نظام حوزہ،طلاب کے اجتماعی اخلاق وآداب،آپسی روابط وغیرہ ۔
گذشتہ زمانے میں پورا حوزہ ایک ہی مجتہد کے تحت نظارت چلتا تھا مگر آج حوزہ کے وسیع ہونے کی وجہ سے نظارت بدلتی رہتی ہے۔جس کی ابتدا عبد الکریم حائریؒ سے ہوئی۔پھر حوزہ آیۃ اللہ بروجردی ؒ کی نظارت میں آیا۔اور آج حوزہ شوریٰ کمیٹی (کہ جس کا انتخاب مراجع کرام کرتے ہیں)کی زیر نگرانی میں تشنگان علوم آل محمد کو چشمۂ علم سے سیراب کررہاہے۔(۲۹۔۳۰)
ٍ حوزہ کا بجٹ
گذشتہ زمانے میں حوزہ کا خرچ محنت ومزدوری کے ذریعہ پورا ہوتا تھا ۔اسی لئے بہت سے علماء کو مزدور اورتاجر کہا جاتا تھا۔لیکن ماضی قریب میں حوزات کا خرچ مراجع تقلید کو دیئے جانے والی رقوم شرعی سے پورا ہوتا تھا ۔یہاں تک کہ بعض افراداپنے مال اورمکتب کوحوزات کے لئے وقف کردیتے تھے جس سے حوزہ کے اخراجات کی فراہمی ہوتی تھی۔مگر آج کل حکومت ایران حوزات علمیہ کے لئے کچھ بجٹ مخصوص کررہی ہے۔ جس سے حوزہ کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔
طلاب کا شہریہ
مراجع تقلید کی طرف سے طلاب کو ماہانہ مدد ملتی ہے اسے شہریہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شہریہ کی سنت قدیم زمانے سے آج تک جاری وساری ہے۔
شہریہ خمس کی مدد سے دیا جاتا ہے ۔گذشتہ دور میں کسی عالم دین کی طرف سے شہریہ دیاجانا اس کی مرجعیت کی دلیل ہوا کرتی تھی ۔
شہریہ دینے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ طلاب بغیر کسی زحمت اور فکر کے تحصیل علم میں ہمہ تن مصروف رہیں۔
انقلاب کے بعد کا حوزہ
انقلاب اسلامی کے بعد حوزۂ علمیہ قم میں بے شمار تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔امام خمینیؒ کے حکم سے حوزہ کی مدیریت کے لئے پہلی شوریٰ کمیٹی کے ممبروںکا انتخاب کیا گیا۔
کچھ سالوں کے بعد حوزہ کی اسناد کا اعتبار بھی قائم ہوگیا۔
حوزۂ علمیہ کی ذمہ داری شوریٰ کمیٹی کے ہاتھوں میں پہونچ گئ اور حوزۂ علمیہ کی مدیریت شوریٰ کمیٹی کی مدیریت سے تبدیل ہوگئی۔
خواتین کے لئے بے شمار مدارس قائم کئے گئے۔اور بہت سے انتشارات ومؤسسات کو بھی حوزہ سے ملحق کردیا گیا۔بہت سے کتابخانے عالم وجود میں آگئے۔
۱۳۹۴ شمسی میں مدارس کی تعداد ۴۸۰ اور اساتیذ کی تعداد ۷ ہزار اور حوزات کی تعداد ۱۷۰ پہونچ گئی۔(۳۱)
حوزہ کی مرکزیت کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا
انقلاب اسلامی کے بعد علوم اسلامی کو پھیلانے کے لئے حوزۂ علمیہ کے ضمن میں بہت سی یونیورسٹیاں وجود میں آئیں۔مثلاً دانشگاہ باقرؑ،موسسہ آموزشی وپژوہشی امام خمینیؒ،دانشگاہ مفیدؒ،دانشگاہ ادیان ومذاہب،دانشگاہ قرآن وحدیث،دانشگاہ معارف اسلامی ،پژوہشگاہ فرہنگ واندیشہ اسلام،پژوہنشگاہ علوم وفرہنگ اسلامی،پژوہشکدہ دانشنامہ نگاری دینی،موسسہ فکر اسلامی،پژوہشگاہ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کا بھی انھیں مراکز میں شمار کیا جاتاہے۔(۳۲)
حوزۂ علمیہ دوسرے شہروں میں
دوسرے شیعہ ممالک میں بھی بہت سے حوزےفعال ہیں۔حوزۂ علمیہ نجف اشرف بھی صدام کی ہلاکت کے بعد اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہاہے۔لبنان،ہندوستان،افغانستان ،پاکستان اوردیگر شیعہ ممالک میں بھی متعدد مدارس مراجع تقلید کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعد سے غیر ایرانی طلاب پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے جامعۃ المصطفیٰ کی بنیاد رکھی گئی۔یہ ایک علمی مرکز ہے کہ جو علوم اسلامی کے نشر کرنے اور غیر ایرانی طلاب کی تربیت وتعلیم کے لئے قائم کیا گیا ہے۔جس کا کورس ۱۷۰ واحد پر مشتمل ہے ۔۶۰ ممالک میں علمی کام انجام دے رہاہے۔اس مرکز علمی کے ابتدائی روز سے لیکر ۱۳۹۴ تک اس میں زیر تعلیم طلاب کی تعدادپچاس ہزارسے بھی زیادہ پہونچ چکی ہے۔اورپچیس ہزار سے زیادہ طلاب فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔یہ علمی مرکز’’ہیئت امناء اور دفتری‘‘ کے زیر نظارت چل رہا ہے۔(۳۳)
حوزہ برائے خواتین
قدیم زمانے میں شیعہ خواتین تحصیل علوم دینیہ میں بہت کم دلچسپی رکھتی تھیں۔پھر پہلی بار ’’دار التبلیغ‘‘نام سے خواتین کے لئے ایک حوزہ قائم کیا گیا۔
۱۳۴۹ میں ’’دارالزہراؐ‘‘نے خواتین کی تعلیم وتربیت کی مکمل ذمہ داری لی ۔
انقلاب کے بعد خواتین کے حوزہ میں وسعت پیدا کی گئی اور محمدر ضا جمشیدی(مدیر حوزہائ علمیہ خواہران)کے کہنے کے مطابق ۸۰ ہزا خواتین،پانچ سو مدارس میں ۱۰ ہزار اساتذہ سے کسب علم کررہی ہیں۔
ان سب میں سب سے اہم مدرسہ ’’مدرسہ جامعۃ الزہرا قم ‘‘ہے ۔یہ خواتین کے لئے علوم دینیہ کے تحصیل کا بہترین مرکز ہے۔
۱۳۶۳ میں امام خمینیؒ کے حکم سے قائم ہوا تھا۔اور چارسطحوں تک طلاب کی تعلیم میں مشغول ہے۔
طالبات آنلائن وآف لائن اس مدرسہ میں پڑھتی ہیں۔غیر ایرانی طالبات کا بھی داخلہ لیا جاتا ہے۔وہاں کے ذمہ دار کے کہنے کے مطابق ۱۳۹۴ تک ۵۰ ہزار طالبات ایرانی وغیر ایرانی جامعۃ الزہرا سے فارغ التحصیل ہوچکی ہیں۔(۳۴۔۳۵۔۳۶)
ہندوستان میں حوزۂ علمیہ
ہندوستان کی سرزمین پر حوزۂ علمیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔سید دلدار علی غرانمآب ؒ نے حوزۂ علمیہ تشیع کی داغ بیل لکھنؤ میں ڈالی اگرچہ یہ باقاعدہ مدرسہ کی صورت میں نہ تھی علماء کے گھروں میں تشنگان علوم کسب علم و حکمت کے لئے جاتے تھے ۔ اور اہل سنت کے مرکزِ علم فرنگی محل میں عربی ، فارسی علوم کے حصول کی غرض سے شیعہ پڑھنے جاتے تھے ۔مگر جب اودھ میں نوابین نے اس سلسلہ میں توجہ کی تو باقاعدہ حوزۂ علمیہ کے قیام کے لئے انھوں نے علماء شیعہ کی حوصلہ افزائی کی ۔ مگر یہ درس و تدریس کا سلسلہ مساجد تک ہی محدود رہا ۔ اس سے پہلے کی مزید پیشرفت ہوتی ۱۸۵۷ء کا غدر مصیبتیں لیکر آگیا ۔۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد علمی مرا کز کو باقاعدہ طور سے چار دیواری اور مخصوص عمارتوں میں قائم کرنے کی فکر شیعہ علماء کو لاحق ہوئی ۔یہاں پر ہم ایک بہت ضرور کہنا چاہیں گے کہ یہ کہنا بے بنیاد ہوگا کہ تشیع میںحوزوی درس و تدریس کا یکسرے سلسلہ ہی نہ تھا۔یہ بات اس لئے درست نہ ہوگی کہ عہد مغلیہ میں شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری ؒ کی ذات گرامی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اُن کے بہت سے شاگردوں کا وجود عہد مغلیہ میں شیعہ مرکز علم کا نقطۂ آغاز کہا جا سکتا ہے اور ’’ احقاق الحق و ازھا ق الباطل ‘‘ نامی معرکۃ الآراء کتاب ان کے جہاد بالقلم کا نمونہ بھی قابل قدر و احترام ہے ۔ اب اودھ کی بات کرتے ہیں جہاں ہندوستانی تشیع پروان چڑھا ۔
اودھ میںمحمد قلی قزلباش خاندان شیعوں کے لئے شریعت کدہ کی حیثیت رکھتا تھا اور بہت سے شاگرد اُن سے کسب فیض کرتے تھے ۔ ’’عبقات الانوار‘‘ اسی شریعت کدہ کا ثمرہ ہے ۔اسی خاندان کی فرد فرید میر حامد حسین اعلیٰ اللہ مقامہ کی علمی سرگرمیوں کا کا شاہکار کارنامہ ہے ۔عبقات الانوار جیسی کتاب علم کلام میں نہ اس سے پہلے لکھی گئی اور نہ اب تک اس کی نظیر منظر عام پر آئی ہے ۔
امام راحل روح اللہ موسوی خمینی ؒ نے اس کتاب کے لئے فرما یا تھا :
’’ یہ کتاب مکتب تشیع کی جانب سے دیگر مسالک اور مذاہب پر حجت ہے ۔‘‘
عبقات الانوار ، احقاق الحق اور دیگر تصنیفات کا ہندوستان کی سر زمین پر معرض وجود میں آنا دراصل تشیع کے حوزۂ علمیہ کی جڑیں کہی جا سکتی ہیں ۔
۱۸۵۷ ء کی تحریک کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں میں متعدد حوزۂ علمیہ قائم ہوئے ۔ جن میں شہر لکھنؤ کا مدرسۂ سلطان المدارس، مدرسۂ مشارع الشرائع ( ناظمیہ)، شہر بنارس میں مدرسۂ جامعہ ٔ ایمانیہ ، مدرسہ ٔ جامعہ جوادیہ ، میرٹھ میں منصبیہ عربی کالج ، شیراز ہند جونپور میں ناصریہ عربی کالج وغیرہ تشیع کے قدیم مدارس شمار کئے جاتے ہیں ۔ مدرسۃ الو ا عظین جو ہندوستان بھر کے فارغ التحصیل طلاب کے لئے بہترین تربیت گاہ ہے اسی عہد قدیم کی یاد گار جب تشیع کی علمی نمود و تعلیمی ترقیوں کے لئے حوزات قائم کئے جا رہے تھے۔ یہ بات اس حوزۂ علمیہ کے لئے ہے جسے آج کی اصطلاح میں بولا جاتا ہے یعنی عمارت وغیرہ اگرچہ حوزۂ علمیہ کا وجود اسی وقت سے ہے جب سے تشیع نے ہندوستان میں قدم دھرے ۔جیسے کہ مغل شہنشاہ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک ابو الفیض فیضیؔ کی غیر منقوط تفسیر قرآن ’’ سوا طع الالہام ‘‘ ہماری بات کی و ثاقت کے لئے کافی ہے ۔ جس کی ایک سطر کوصحیح تلفظ سے پڑھنے کے لئے علم کے بحر زخار میں غوطہ زن ہونا ضروری ہے ۔
صاحب عبقات الانوار میر حامد حسین ، مجدد شریعت سید دلدار علی غفرانمآب ، نجم العلماء سید نجم الحسن ، ظفر الملت سید ظفر الحسن ، صفوۃ العلماء آقا حسن ، سید العلماء سید علی نقی ، حافظ الحدیث شبیر حسن نجفی کو پاگنجی ، ناصر الملت سید ناصر حسین ، نصیر الملت سید محمد نصیر ، مولانا سلمان حیدر نوگانوی ، قدوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد ، علامہ محمد سبطین جعفری سرسوی ، مولانا سعادت حسن خاں ،مولانا سید محمد باقر ، مولانا سید محمد جعفر ،خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری ،فخر العلماء مولانا مرزا محمد عالم ، علامہ سید ذیشان حیدر جوادی ،مولانا احمد حسن ، مولانا سید محمد شاکر اعلیٰ اللہ مقامہم ،حوزۂ علمیہ ہندوستان کے درخشاں ستارے ہیں۔
۱۹۶۸ ء میں دینی تعلیم کو رواج دینے اور ملک بھر میں دینی فضا بنانے کے لئے خطیب اعظم مولانا سد غلام عسکری اعلیٰ اللہ مقامہ نے ادارۂ تنظیم المکاتب کی بنیاد رکھی ۔اگرچہ تنظیم المکاتب نے ابتدائی دینی تعلیم کے لئے قریہ قریہ جاکر مکاتب امامیہ قائم کئے تھے ۔تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حوزات میں جانے والے طلاب کو ان مکاتب سے بہت تقویت حاصل ہوئی ۔ اردو زبان جس کا زوال شروع ہو چکا تھا ملت تشیع میں اس زبان کو کسی حدتک باقی رکھنے کے لئے تنظیم المکاتب نے بہترین کردار ادا کیا اور مرجھائی رو حانیت پر آبپاشی کا کام کیا ۔
۱۹۸۳ء میں شہر لکھنؤ میں جامعہ امامیہ کے نام سے خالص دینی فضا سے مملو حوزہ کا قیام بھی مولانا غلام عسکری اعلیٰ اللہ مقامہ کی سعی جمیلہ کا نتیجہ تھا ۔ اپنی خصوصیات کا یہ پہلا حوزہ علمیہ ہے ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ۲۴ گھنٹے کا نظام تربیت بھی اس مدرسہ کو ممتاز بناتا ہے ۔
مربی قوم سرکار خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری ؒ ایران کے جا معۃ الزہرا کی طرز پر خواتین کے لئے ایک حوزہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔مگر اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے سے قبل رحمت کردگار سے ملحق ہو گئے ،۔
۲۰جمادیٰ الثانیہ ۱۴۱۵ ھ میں جامعۃ الزہرا کا قیام عمل میں آیا جس کی نظیر آج بھی ہندوستان میںدیکھنے کو نہیں ملتی ۔
المختصر یہ کہ آج ہندوستان میں سینکڑوں کی تعداد میں حوزات علمیہ کا وجود ملت تشیع کی بیداری کی علامت ہیں اگرچہ اس نظم اور توجہ کی بہر حال ضرورت ہے جو تعلیمی اداروں کے لئے لازم و ضروری ہے تاکہ یہ حوزات علمیہ چار دیواری سے ما وراء بھی علم کے نورانی پردوں سے احاطہ بندی کر کے منزل مقصود تک پہنچ سکیں اور قوم و ملت کو کما حقہ فیضیاب کریں ۔
حوالاجات
1. اباذری، عبدالرحیم، ۱۳۸۹، ص۲۵.
2. صافی گلپایگانی، سیر حوزههای علمی شیعه، ۱۴۳۰ق، ص۲۹-۳۳
3. زهره کاشانی، تاریخ حوزه علمیه قم از تأسیس تا سده چهارم، دوفصلنامه علمی-پژوهشی تربیت اسلامی،ش ۸، بهار و تابستان ۱۳۸۸
4. دانشنامه جهان اسلام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۳۷۷.
5. دانشنامه جهان اسلام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۳۸۵.
6. جوادی، / حسنی، بررسی تاریخ حوزهٔ علمیه حله، ۱۳۸۷ش، شماره ۲۱.
7. دانشنامه جهان اسلام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۴۰۷.
8. دانشنامه جهان اسلام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۴۰۷.
9. جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴، ص۱۰.
10. جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴ش، ص۱۱.
11. جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴ش، ص۷.
12. مطهری، آشنایی با علوم اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۲۹۱.
13. جمعی از مؤلفان، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۳ش، ج۶، ص۶۱۰.
14. دایره المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۳، ج۶، ۵۹۶.
15. دایره المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۴ش، ج۲۱، ص۴۹۱.
16. «شرح تصویب مدارک حوزوی»، ۱۳۷۷ش، ص۱۳.
17 حداکثر سن داوطلبان ورود به حوزههای علمیه، جدول شرایط سنی.
18 جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴ش، ص۹.
19 جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴ش، ص۱۰.
20 جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴، ص۱۴.
21 مشی غیراعتدالی در حوزه نجف مقبولیت ندارد.
22 مینورسکی، ص۳۸
23 سلطان القرائی، ص۱۰۴
24 بلاغی، ج۱، ص۲۷۰
25 بلاغی، تاریخ تهران، ۱۳۵۰ق، ج۱، ص۱۹۸
26 معتمدی، جغرافیای تاریخی تهران، ۱۳۸۱ش، ص۴۵۵
27 دایره المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۴ش، ج۲۱، ص۴۹۱.
28 دایره المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۴ش، ج۲۱، ص۴۹۰.
29 جمعی از نویسندگان، حوزه علمیه، تاریخ، ساختار، کارکرد، ۱۳۹۴، ص۱۲.
30 مطهری، بحثی پیرامون مرجعیت و روحانیت، ۱۳۴۱ش، ص۱۸۱.
31 بوشهری، حسینی، آخرین آمار طلاب حوزههای علمیه.
32 عیسی نیا، رضا، آشنایی با مراکز تخصصی حوزه علمیه قم، سایت دفتر تبلیغات اسلامی، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۲/۱۰
33 وب سایت جامعه المصطفی، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۲/۱۴.
34 جعفریان، جریانها و سازمانهای مذهبی-سیاسی ایران، ۱۳۷۸ش، ص۳۴۰.
35 محمود رضا جمشیدی، خبرگزاری رسا، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۱/۲۸.
36 حاضری، امام خمینی و نهادهای انقلاب اسلامی، ۱۳۸۱ش، ص۹۱.
37 سایت مدیریت امور مراکز تخصصیهای حوزههای علمیه، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۱/۲۴.
38 سایت همایش کتاب سال حوزه، تاریخ بازدید: ۱۳۹۸/۲/۸.
منابع
آخرین آمار طلاب حوزههای علمیه، سایت تابناک، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۲/۱۴.
اباذری، عبدالرحیم، تبارنامه حوزه و روحانیت از صدر اسلام تا پهلوی، انتشارات سلمان فارسی، قم، ۱۳۸۹ش.
امام خمینی، صحیفه نور، تهران، ۱۳۷۶ش.
بلاغی، عبدالحجت، تاریخ تهران، قم، ۱۳۵۰ق.
جعفریان، رسول، جریانها و سازمانهای مذهبی-سیاسی ایران(۱۳۲۰-۱۳۵۷)، تهران، انتشارات خانه کتاب، ۱۳۷۸ش.
جوادی، قاسم / حسنی، سیدعلی، بررسی تاریخ حوزهٔ علمیه حله، بهار ۱۳۸۷، مجله شیعهشناسی، شماره ۲۱.
حاضری، مهدی، امام خمینی و نهادهای انقلاب اسلامی، معاونت مؤسسۀ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۱ش.
حداکثر سن داوطلبان ورود به حوزه های علمیه، جدول شرایط سنی، مرکز اطلاع رسانی مدیریت حوزه علمیه قم، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۲/۱۴.
ریحان یزدی، علیرضا، تأسیس و تکوین حوزه علمیه قم، شناخت نامۀ قم، قم، ۱۳۹۰ش.
زهره کاشانی، علی اکبر، تاریخ حوزه علمیه قم از تأسیس تا سده چهارم، دوفصلنامه علمی-پژوهشی تربیت اسلامی، ش ۸، بهار و تابستان ۱۳۸۸.
سلطان القرائی، جعفر، ملحقات باب تبریز، همراه تاریخ تبریز، مینورسکی.
سلطانزاده، حسین، تاریخ مدارس ایران از عهد باستان تا تأسیس دارالفنون، تهران، ۱۳۶۴ش.
سیدکباری، سید علیرضا، حوزههای علمیه شیعه در گستره جهان، تهیه: پژوهشکده باقرالعلوم، انتشارات امیر کبیر، تهران، ۱۳۷۸ش.
شرح تصویب مدارک حوزوی، مجله پیام حوزه، شماره ۱۷، بهار ۱۳۷۷ش،
صافی گلپایگانی، لطف الله، سیر حوزههای علمی شیعه، مرکز نشر آثار حضرت آیت الله العظمی صافی، قم، ۱۴۳۰ق.
گیلانی مرتضی، مدارس نجف و زی طلبگی، پیام بهارستان، پاییز، ۱۳۸۹ش، دوره ۲، س ۳، شماره ۹.
مجله حوزه، آذر و دی ۱۳۸۳، شماره ۱۲۵، ص۱۹۵.
مشی غیراعتدالی در حوزه نجف مقبولیت ندارد، گفتگوی سایت مباحثات با شیخ محمد سند بحرانی، تاریخ بازدید ۱۳۹۶/۱۰/۱۲.
مصطفوی، محمدکاظم، فقه المعاملات، قم، ۱۴۲۳ق.
مصوبه جلسه ۳۶۸مورخ ۷۴.۱۱.۳شورای عالی انقلاب فرهنگی در مورد مدارک تحصیلی صادر شده مدیریت حوزه علمیه قم، سایت مرکز پژوهش های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید ۱۳۹۵/۱۲/۱۴.
مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۳۷۲.
مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران، ۱۳۵۸ش.
معتمدی، محسن، جغرافیای تاریخی تهران، تهران، ۱۳۸۱ش.
پیوند به بیرون